کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 74
کے مطابق۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا آؤ خوشی سے یا نا خوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں ۔ پھر اُس نے دو دن میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب حال حکم وحی کر دیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اُسے محفوظ کر دیا۔ یہ منصوبہ ہے ایک زبردست علیم ہستی کا۔‘‘ اس آیت میں ’’قضاء‘‘ اور ’’قدر‘‘ دونوں کا ذکر موجود ہے۔ یہ ہے قضاء و قدر کی حقیقت یعنی اس نے اشیاء کی تخلیق ایک منظم اور محکم اور پائیدار منصوبہ کے ساتھ کی ہے، اور جس میں زمانہ کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ہر چیز حساب سے ہے۔ صحیحین کی اس حدیث کا بھی مطلب یہی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ مَقَادِیْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرَضَ۔)) [1] ’’اللہ تعالیٰ زمین کی اور آسمان کی تخلیق سے پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھ چکا ہے۔‘‘ ۵۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول: اس لکھنے سے مراد وہ علم ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اسی مفہوم میں ہم کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور اللہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ قدرۃ اللہ یعنی جو اللہ کے علم میں سے موجود ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جمہور اہل سنت جو تقدیر کو مانتے ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ حقیقتاً فاعل ہے اور وہ حقیقتاً قدرت و استطاعت رکھتا ہے۔ وہ طبعی اسباب کی تاثیر کا انکار نہیں کرتے، بلکہ ان تمام باتوں کو مانتے ہیں جن پر عقل دلالت کرتی ہے، مثلاً یہ کہ اللہ ہواؤں سے بادلوں کو پیدا کرتا ہے۔ بادلوں سے پانی برساتا ہے اور پانی
[1] مسلم: باب حجاج آدم و موسیٰ، ح: ۲۶۵۳۔