کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 73
اندازہ مقرر کیا تو کیا ہی اچھے ہیں ہم اندازہ مقرر کرنے والے اور دوسری قرأت بغیر تشدید کے ہے یعنی قَدَرْنَا جو قدرت سے مشتق ہے۔ اس صورت میں معنی ہوں گے ہم اس کی تخلیق اور قدرت گری بہترین شکل میں کرنے پر قادر تو کیا ہی اچھے ہیں ہم قدرت رکھنے والے۔ یہ ہے ’’قدر‘‘ کی حقیقت جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے، ایک شاعر کے قول سے بھی قدر کا مفہوم واضح ہوتا ہے: قدر لرجلک قبل الخطو موضعہا فمن علاز لقا عن غرۃ زلجا ’’قدر رکھنے سے پہلے باتوں کے لیے جگہ کا اندازہ کر لو کیونکہ جو بے پرواہی سے چکنی زمین پر قدم رکھتا ہے پھسل جاتا ہے۔‘‘ رہا لفظ قضاء تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مخلوقات کی تخلیق کر چکا۔ دونوں کا ذکر ذیل کی آیت میں موجود ہے: ﴿قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَندَادًا ذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَا اَقْوَاتَہَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَائً لِّلسَّائِلِیْنَo ثُمَّ اسْتَوَی اِِلَی السَّمَآئِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا قَالَتَا اَتَیْنَا طَائِعِیْنَo فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْنِ وَاَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَائٍ اَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo﴾ (حٰمٓ السجدہ: ۹۔۱۲) ’’کہو کیا تم اس خدا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو؟ وہی تو سارے جہاں کا رب ہے اس نے زمین کے اوپر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا چادن میں ۔ مانگنے والوں کی ضرورت