کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 72
اس کی نظیر یہ آیت بھی ہے: ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیمِo﴾ (یٰسٓ: ۳۹) ’’اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ پھر کھجور کی سوکھی ٹہنی کی طرح رہ جاتا ہے۔‘‘ یعنی چاند کے لیے اندازے مقرر کر دیے، چنانچہ وہ اس کے مطابق ہر شب کو ایک منزل میں داخل ہوتا ہے نہ اُس سے آگے بڑھتا ہے اور نہ پیچھے رہتا ہے۔ قدر کے معنی پر اس آیت سے بھی روشنی پڑتی ہے: ﴿ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰیo﴾ (طٰہٰ: ۴۰) ’’پھر اے موسیٰ تم ایک خاص وقت پر آ گئے۔‘‘ یعنی تمہارے آنے کے لیے جو وقت ہم نے مقرر کیاہے اس پر تم آئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے چالیس شب و روز کے بعد کلام کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: ﴿فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً﴾ (الاعراف: ۱۴۲) ’’تو اس کے رب کی مقررہ مدت چالیس شب و روز میں پوری ہو گئی۔‘‘ اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہوا ہے: ﴿اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍo فَجَعَلْنٰہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍo اِِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍo فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَo﴾ (المرسلٰت: ۲۰) ’’کیا ہم نے تم کو ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟ پھر ہم نے اس کو ایک مقررہ وقت تک ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ تو ہم نے ایک اندازہ مقرر کیا۔ پس ہم کیا ہی اچھا اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔‘‘ ایک قرأت قَدَّرْنَا، تشدید کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں ہم نے محکم تدبیر کے ساتھ