کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 71
غلط تفسیر کرتے ہیں اور ان آثار کا حوالہ دیتے ہیں جو قضاء و قدر کے سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں گویا اس آیت کا شان نزول یہی ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس آیت کا قضاء و قدر سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس جیسی دوسری آیت یہ ہے: ﴿وَاَنزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً بِقَدَرٍ﴾ (المؤمنون: ۱۸) ’’اور ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے مطابق پانی اتارا۔‘‘ یعنی لوگوں کی ضرورت کے بقدر۔ ایسی کثیر اور موسلا دھار بارش نہیں کہ لوگوں کی کھیتیاں اور جانور تباہ ہو جائیں اور نہ ایک دم سے کسی ایک جگہ پر کہ عمارتوں کو نقصان پہنچے، بلکہ قطروں کی شکل میں اس طرح برستی ہے کہ گویا چھلنی کے سوراخوں سے پانی ٹپک رہا ہے۔ اس سے زمین سیراب ہوتی ہے اور وادیاں بہنے لگتی ہیں ۔ اگر ایک ساتھ پانی برستا تو اس سے لوگوں کو مویشیوں اور کھیتیوں کو نقصان پہنچتا اور جو فوائد مطلوب ہیں وہ حاصل نہ ہوتے جیسا کہ ایک جگہ فرمایا : ﴿وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَائُ اِِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌo﴾ (الشوریٰ: ۲۷) ’’اگر اللہ اپنے سب بندوں کے لیے رزق فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرتے، لیکن اللہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے رزق نازل فرماتا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے۔‘‘ آیت ﴿وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَائً بِقَدَرٍ﴾ ’’اور ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازہ کے مطابق پانی اُتارا۔‘‘ لفظاً و معناً آیت: ﴿اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ﴾ ’’ہم نے ہر چیز ایک اندازہ کے مطابق پیدا کی ہے۔‘‘ کے مشابہ ہے اور اس کا مطلب وہی ہے جو آیت: ﴿وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا﴾ ’’اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔‘‘ کا ہے یعنی ہر چیز کو موزوں ، منتاسب اور پختہ بنایا: ﴿صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ﴾ ’’یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو استوار کیا۔‘‘