کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 70
کرتی ہے۔ جو شخص بھی تقدیر سے متعلق قرآن کی آیت کا مطالعہ کرے گا وہ ان کو اسی مفہوم پر منطبق پائے گا۔ رہا لفظ قضاء کا تو اس کا استعمال کسی کام کو پورا کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ ۴۔ تقدیر کی بابت قرآن کی تفصیلات: اس پیش نظر قضاء و قدر کے معنی ہوئے: اللہ تعالیٰ نے عالم کو پختہ اور محکم اندازوں (منصوبہ بندی) کے تحت وجود بخشا اور ایسے قوانین جاری کیے جو نا قابل تغیر و تبدل ہیں ، اور اس نے اس کام کو اس طرح مکمل کر دیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی اصلاح تبدیلی یا کمی بیشی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ اس ہستی کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو پختہ بنایا، ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًاo﴾ (الفرقان: ۲) ’’اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اُس کی ایک تقدیر مقرر کی۔‘‘ یعنی اُس نے نہایت منظم، پختہ اور محکم انداز سے پیمانے مقرر کیے، نیز فرمایا: ﴿اَللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍo﴾ (الرعد: ۸) ’’اللہ جانتا ہے ہر عورت کے حمل کو اور جو کچھ رحموں کے اندر گھٹتا اور بڑھتا ہے، اُسے بھی اور ہر چیز اس کے ہاں ایک اندازہ کے مطابق ہے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ﴿اِِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍo﴾ (القمر: ۴۹) ’’ہم نے ہر چیز اندازے کے مطابق پیدا کی ہے۔‘‘ یعنی مقررہ اندازے اور پختہ نظام کے ساتھ۔ ہر چیز اسی طرح پیدا کی گئی ہے اور کسی چیز کو بھی اس نے اس طرح سے پیدا نہیں کیا کہ وہ اتفاقاً اور طبعاً وجود میں آئی ہو۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس کا یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ: ’’ہم نے ہر چیز کو اپنے مقررہ پیمانے اور اپنے فیصلہ کے مطابق پیدا کیا۔‘‘ بعض مفسرین اس آیت کو قضا و قدر پر محمول کر کے اس کی