کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 68
کاوش نہیں کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قضا و قدر کی بحث میں نہیں پڑتے تھے، اس بنا پر کہ اس کا تعلق عالم غیب سے ہے اور ان امور سے ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ زہیر کا شعر ہے: لو کنت اعجب من شیء لأ عجبنی سعی الفتی وہو مخبوء لہ القدر ’’اگر مجھے کسی بات پر تعجب ہوتا تو تعجب خیز چیز انسان کی کوشش ہے کہ جب تقدیر اس سے پوشیدہ ہے۔‘‘ ۲۔ تقدیر کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کے اقوال: انسان کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان تمام باتوں پر ایمان لے آئے جن کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔ مثلاً مخلوقات کی تخلیق ہر چیز کا اسے پہلے سے علم ہونا، ہر چیز پر اس کا قادر ہونا اور یہ کہ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ امام احمد سے جب تقدیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’تقدیر رحمن کی قدرت ہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مفہوم کو اشعار میں نقل کیا ہے، فرماتے ہیں : فحقیقۃ القدر الذی حارالوریٰ فی شأنہ ہو قدرۃ الرحمٰن ’’تقدیر کی حقیقت جس کے بارے میں لوگ پریشان ہیں یہ ہے کہ وہ رحمن کی قدرت ہے۔‘‘ واستحسن ابن عقیل ذا من احمد لما حکاہ عن الرضوی الربان ’’ابن عقیل نے امام احمد کے اس قول کو مستحسن قرار دیا ہے کیونکہ یہ ایسی شخصیت سے منقول ہے جو نہایت پسندیدہ اور اللہ والی ہے۔‘‘