کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 67
قضاء وقدر پر اہل سنت کا ایمان ۱۔ قضا و قدر کی حقیقت: قضاء و قدر کی بحث نے علمائے متقدمین و متاخرین کے درمیان ایسی نزاعی شکل اختیار کر لی کہ وہ مختلف فرقوں میں بٹ کر رہ گئے۔ اس کے نتیجہ میں جو صورتِ حال پیش آئی اس کی تعبیر اگر ہم قرآن کے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو وہ یہ ہوگی: ﴿کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَo﴾ (الروم: ۳۲) ’’ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس پر نازاں ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ وَ اللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (البقرۃ: ۲۱۳) ’’تو اللہ نے اپنے اذن سے اہل ایمان کی اس حق کے معاملہ میں رہنمائی فرمائی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے راہِ راست دکھاتا ہے۔‘‘ ’’قدر‘‘ کا مطلب اگر ہم یہ بیان کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نظام اور ایک محکم منصوبے کے ساتھ اشیاء کا اندازہ مقرر کیا ہے جو قدرت الٰہی کے ہم معنی ہے، کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور جو وہ چاہتا ہے کر گزرتا ہے یا بالفاظ دیگر ہم یہ کہیں کہ ’’قدر‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے اُن کا جاننا ہے کیونکہ جو کچھ ہو چکا جو ہونے والا ہے اور جس طرح ہونے والا ہے ان سب باتوں کو اسے اچھی طرح علم ہے۔ بہر صورت یہ سب باتیں اس کی صفات میں سے ہیں اور تقدیر الٰہی کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ تقدیر کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ اس لیے اس کی اصل حقیقت جاننے کے لیے انسان کو