کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 65
ہیں ، لہٰذا ان کا جھٹلانا قواعد شریعہ قطعیہ معتبرہ کے خلاف ہے بلکہ اسلام سے ارتداد کے برابر۔ فرمایا: ﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعَلْمِہٖ وَ لَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (یونس: ۳۹) ’’یعنی علم کے بغیر انہوں نے اس کو جھٹلا دیا اور نہ ہی ان کو ابھی اس تکذیب کا انجام ملا۔ اسی طرح ان سے پہلے والوں نے بھی جھٹلایا تھا، دیکھ لو ان کا انجام کیا ہوا۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق ضروری ہے اور یہ ہر گز ضروری نہیں کہ اس امرو نہی یا خیر پر کوئی عقلی دلیل بھی موجود ہو کیونکہ اسلام کی بنیاد بات جس کو اضطراراً معلوم کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کی تصدیق کریں خواہ اپنی عقل سے ہم اس کی حکمت سمجھ سکیں یا نہیں ۔‘‘ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو عقل سے جانچے بغیر نہ تسلیم کرے تو اس کا حال ان لوگوں جیسا ہے، جنہوں نے کہا تھا: ﴿لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ﴾ (الانعام: ۱۲۴) ’’ہم آپ پر ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی وہی نہ دیا جائے جو اور رسولوں کو دیا گیا۔‘‘ جس کا مسلک ہو وہ فی الحقیقت نہ قرآن پر ایمان رکھتا نہ رسول پر اور نہ اخبار دینیہ کو وہ قبول کر سکتا، اس کے نزدیک اس میں کوئی فرق نہیں کہ قرآن، یا رسول کی طر ف سے اس کو خبر دی جائے یا نہ دی جائے، کیونکہ کہ اگر خبر دی گئی اور وہ اس خبر کو اپنی عقل سے نہ سمجھ سکا تو تصدیق ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی من مانی تاویل کر ڈالے گا اور جس چیز کی خبر نہ دی گئی اس کو اس نے اپنی عقل سے سمجھ لیا تو اس بے بنیاد بات ہی پر ایمان لے آئے گا، جن کا مسلک