کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 64
کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ﴾ (التوبۃ: ۱۱۳) ’’جائز نہیں ہے نبی اور ایمان والوں کے لیے وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں ، خواہ وہ اُن کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں ، جب ان کے بارے میں معلوم ہو گیا کہ وہ جہنمی ہیں ۔‘‘ کیونکہ جس کے عمل نے اس کو روک یا، اس کا نسب اس کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ الغرض انبیائے کرام کے معجزات کے سب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ انبیاء کے کسی تصرف سے نہیں ہوتے، جیسا کہ قرآن نے کہا: ﴿وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ﴾ (المؤمن: ۷۸) ’’کسی رسول کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ پیش کر سکے۔‘‘ ۱۲۔ معجزات اور کرامات برحق ہیں ، ان کا منکر مومن نہیں : اللہ تعالیٰ نے ان معجزات کے ذریعے اپنے انبیاء کی محض اسی لیے تائید کی ہے کہ یہ معجزات انبیاء کے حق میں ان کی قوم پر حجت بن جائیں تاکہ ہدایت کا خواہش مند اُن کو دیکھ کر راہ یاب ہو جائے اور منکرین پر عذاب کا فیصلہ ثابت ہو جائے، فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَo وَ لَوْ جَآئَ ہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَo﴾ (یونس: ۹۶۔۹۷) ’’جن پر تمہارے رب کی بات ثابت ہو چکی جب تک وہ عذاب الیم نہ دیکھ لیں کبھی ایمان نہیں لائیں گے خواہ ان کے پاس سب معجزات ہی کیوں نہ آ جائیں ۔‘‘ انبیائے کرام کے جو معجزات ثابت ہیں اور اولیاء کرام کی جو کرامات بھی مثلاً اصحاب کہف وغیرہ کی کرامات تو جن کی دلالت نصوص قرآنیہ سے واضح ہے اُن کا اعتبار تو قطعی طور پر کیا جائے گا۔ رائے و قیاس کے سہارے ان کا انکار ممکن نہیں اور نہ ہی اُن کے حقیقی مراد و معنی کو تاویل کے ذریعے سے بدلا جا سکتا ہے۔ انبیائے کرام نے بہت سی محیر العقول باتیں پیش کی