کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 63
۱۱۔ انبیاء انسانوں کی ہدایت اور معجزات کے مالک نہیں : رہے انبیاء کے فرائض تو انبیاء بشر تھے، اللہ نے ان کو دین حق کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا کہ وہ اپنے قول و عمل اور تعلیم و ارشاد اور تبشیر و انذار کے ساتھ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پسندیدہ دین پہنچائیں اور شریعت الٰہیہ کے احکام کو ان میں عدل و مساوات کے ساتھ نافذ کریں ، اور اللہ نے اُن کو اپنی مخلوق میں اتنا بھی حق تصرف نہیں دیا ہے کہ وہ اپنے باپ، بیٹے اور لوگوں میں سے جو بھی ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں ان کو ہدایت دے سکیں ، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کافر رہ کر زندہ رہے اور کافر ہی رہ کر مرے بھی اور دنیا میں اللہ کے پہلے نبی نوح علیہ السلام کا لڑکا کفر کی حالت میں مرا اور اللہ نے حضرت نوح کو اجازت نہیں دی کہ اس کو اپنی کشتی پر سوار کر لیں اور وہ بھی سب کے ساتھ غرق ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب آپ کو اذیت پہنچانے والوں اور دین سے لوگوں کو روکنے والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سب سے سخت تھا جس کی مذمت اور وعید میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی ایک سورت ہی نازل فرما دی جس کی تلاوت قیامت تک مسلمان کرتے رہیں گے۔ آپ کے چچا ابو طالب جنہوں نے آپ کی کفالت اور پرورش کی اور مشرکین کے حملوں کو آپ کی طرف سے روکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی کا اعتراف کیا، لیکن جب آپ نے ان سے مرنے کے وقت فرمایا:اے محترم چچا! لا الٰہ الا اللّٰہ کا اقرار کر لیجئے کہ میں اس کے ذریعہ اللہ کے یہاں آپ کی شفاعت کر سکوں۔‘‘ تو انہوں نے انکار کر دیا اور عبدالمطلب کے دین پر مرے۔ اللہ نے اسی کی بابت پر آیت نازل فرمائی: ﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ﴾ (القصص: ۵۶) آپ جن کو چاہتے ہیں ان کو ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف راہ دکھاتا ہے، اور اللہ نے آپ کو ان مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا، اور فرمایا: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ