کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 60
نے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، تو آپ نے فرمایا: ’’موسیٰ کے ساتھ ہمارا حق یہودیوں سے زیادہ ہے لہٰذا یہودیوں کی مخالفت کرو اور عاشورہ سے ایک دن پہلے یا بعد مزید ایک روزہ رکھو۔‘‘[1] ان معجزات اور دلائل واضحہ کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کیونکہ اللہ نے ان معجزات کو اپنے ان انبیاء اور رسولوں کی صداقت کے لیے پیش کیا تھا جو ان معجزات کو اللہ کی طرف سے لائے تھے اور انہوں نے اپنی سچائی کی دلیل میں قوم کے سامنے ان کو پیش کیا تھا، اور یہ معجزات خود دلیل ہیں خارق عادت ہونے کی اور ان کا مقابلہ کرنا نیز ان کی مثال پیش کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ انسانی عقل و محنت سے نہیں بنائے گئے ہیں اور نہ انبیاء کے سوا کوئی اُن کو پیش کر سکتا، اسی بنا پر منکرین ان معجزات کو دیکھ کر انبیاء کو جادو گر کہا کرتے تھے، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا: ﴿کَذٰلِکَ مَا اَتٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌo اَتَوَاصَوْا بِہٖ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَo﴾ (الذٰریات: ۵۲۔۵۳) ’’اسی طرح ان سے پہلے جتنے رسول بھی آئے سب کو انہوں نے جادو گر مجنوں کہا، کیا اس کی انہوں نے ایک دوسرے کو وصیت کر رکھی تھی، نہیں بلکہ یہ بہت سرکش لوگ ہیں ۔‘‘ ۹۔ معجزہ اور جادو کا فرق: مسلسل تمام انبیاء کو جادو گر کہے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ منکرین ایک دوسرے کو ایسا کہنے کی وصیت کیا کرتے تھے، حالانکہ یہ معجزات اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں ، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے رسولوں اور کتابوں کی صداقت واضح کرنا چاہتا ہے: ﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّاْتِیَ بِآیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ﴾ ’’اور کسی نبی کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر وہ کوئی معجزہ پیش کر سکیں ۔‘‘
[1] ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب صیام عاشوراء: ۱۷۳۴۔