کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 57
قرآن کی حقانیت کے لیے بہت بڑا معجزہ ہے، ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِo لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَo﴾ (الحاقہ: ۴۴۔۴۶) ’’اگر پیغمبر ہمارے ذمہ کچھ جھوٹی باتیں لگا دیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور اُن کی رگِ دل کاٹ لیتے۔‘‘ یہ نہ کہا جائے کہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر اللہ کے کلام کیے بغیر اور جبرائیل علیہ السلام کے آپ پر اُتارے بغیر ہی اُتر گیا ہے۔ کیونکہ یہ اس قرآن کی صاف تکذیب ہے اور یہ ایک اکیلے سرکش ظالم کی کہی ہوئی بات ہے، جس نے کہا: ﴿اِنْ ہٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِo﴾ (المدثر: ۲۵) ’’یہ صرف ایک بشر کا کلام ہے۔‘‘ مزید کہا گیا: ﴿وَقَالُوْا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًاo قُلْ اَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الفرقان: ۵۔۶) ’’اور یہ کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن بے سند باتیں ہے جو اگلوں سے منقول چلی آتی ہیں جن کو اس پیغمبر نے لکھوا لیا ہے وہی صبح و شام اس پر پڑھی جاتی ہیں کہہ دیجئے کہ اس قرآن کو تو اس ذات نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی سب چھپی باتوں کو جانتا ہے بے شک وہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ﴾ (النحل: ۱۰۲) ’’آپ کہہ دیجئے اس کو روح القدس نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے۔‘‘