کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 43
اللّٰہُ لِقَائَہٗ۔)) [1] ’’جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے او رجو اللہ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔‘‘ تو صحابہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص موت کو ناگوار سمجھتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ نہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان جب دنیا سے رشتہ ختم کر کے آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اگر وہ اہل خیر میں سے ہے تو اس کی خیر کی بشارت دی جاتی ہے اس وقت وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اور اگر وہ اہل شر میں سے ہوتا ہے تو اس کو برائی کی اطلاع دی جاتی ہے اس وقت وہ اللہ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے۔ جو روزِ آخرت کے جھٹلانے کا عقیدہ رکھتا ہے اور حشر کے برپا ہونے اور نیکیوں اور گناہوں کی جزا و سزا کا انکار کرتا ہے وہ اپنی عقل و عمل سے دنیا ہی کے کام کا اہتمام کرتا ہے اور اپنے پیٹ و شرمگاہ کی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اللہ کے فرائض کو ترک کرتا ہے اور آخرت کے کاموں کو بھول جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ہوشیار کیا ہے کہ وہ اس دُنیا دار کی طرح نہ ہو جائیں ، فرمایا: ﴿یٰٓـاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسَاہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَo﴾ (الحشر: ۱۸۔۱۹) ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے کہ سوچے کل کے لیے اس نے کیا کیا آگے بھیجا اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ تمہارے عمل سے با خبر ہے اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں ۔‘‘
[1] بخاری، باب من احب لقاء اللّٰہ: ۶۵۰۷۔