کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 42
لیے ختم نہیں کرتی بلکہ موت تو نام ہے ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہو جانے کا ﴿لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَسَاؤُا بِمَا عَمِلُوْا یَجْزِیَ الَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰی﴾ تاکہ بروں کو ان کے برے اعمال کی سزا دیجئے اور نیکوں کو نیکی کی جزا ملے۔ لہٰذا موت سے تو ہی گھبرائے گا جس نے آخرت کے لیے کوئی اچھا کام نہیں کیا ہوگا او رجس کا یہ نظریہ ہوگا کہ: ﴿مَا ہِیَ الَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا﴾ بس زندگی اسی دنیا کی زندگی کا نام ہے جس میں ہم جیتے اور مرتے ہیں ، اور یہ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اپنی زندگی میں افراط سے کام لیا، دنیا کو خوب سنوارا اور آخرت کو ویران کر ڈالا ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ ایسا شخص دنیا اور آخرت دونوں ہی جگہ خسارہ میں رہا او ریہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ ایسا شخص موت کے وقت بہت نادم و پشیمان ہوتا ہے، اور افسوس کے ساتھ کہتا رہتا ہے: ﴿یَالَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْo فَیَوْمَئِذٍ لّاَ یُعَذِّبُ عَذَابَہٗ اَحَدٌo وَلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ اَحَدٌo﴾ (الفجر: ۲۴۔۲۶) ’’کاش میں آخرت کی زندگی کے لیے کوئی عمل نیک آئے بھیجے ہوتا تو اس روز نہ تو اس کے عذاب کے برابر کوئی عذاب دینے والا نکلے گا اور نہ اُس کے جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا نکلے گا۔‘‘ لیکن اس کی مذمت سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا اُس دن تو آدمی اپنی اطاعت اور احسان کی جزا پائے گا یا گناہ و عصیان کی سزا پائے گا، کہنے والے تو صرف اتنا کہیں گے کہ آج فلاں شخص مر گیا، اور زندگی موت سے کتنی قریب ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے پردہ غیب سے ظاہر ہو کر رہے گا اور مومن کا عقیدہ ہے کہ اس کے اس کی دنیاوی زندگی سے زیادہ مضبوط اور ترقی پذیر زندگی اس کے لیے آخرت میں ہے اور موت چاہے لوگوں کو نا پسند ہو لیکن وہ مومن کے لیے اس محرومی اور فناء کے مقام سے سعادت اور بقاء کے ا بدی مقام کی طرف منتقل ہونے کا سبب ہے، اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ اَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَہٗ، وَ مَنْ کَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ کَرِہَ