کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 41
شب ہی میں چل پڑے گا اور جو اندھیرے منہ نکل جائے گا وہ منزل تک پہنچ جائے گا، اور جو اللہ سے ڈرے گا اس کے غضب کے قریب بھی نہ جائے گا، اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ من مانی نہیں کرے گا، اور اگر قیامت کا وجود برحق نہ ہوتا تو آج دنیا کا یہ حال نہ ہوتا۔ کیونکہ مومن جانتا ہے کہ دنیا ابتلاء اور امتحان اور فناء اور زوال کا مقام ہے، ارشاد ہے: ﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَالِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَاعَلَیْہَا صَعِیْدًا جُرُزًاo﴾ (الکہف: ۷۔۸) ’’ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس لیے با رونق بنایا تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کر لیں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے، اور ہم زمین پر کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان (یعنی فنا) کر دیں گے۔‘‘ اللہ نے دنیا کو دار متاع کہا ہے، فرمایا: ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ﴾ (النساء: ۷۷) ’’کہہ دو دنیا کا سامان تھوڑا ہے۔‘‘ ایک جگہ اور فرمایا: ﴿وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ (آل عمران: ۱۸۵) ’’اور دنیا دھوکے کا سامان ہے۔‘‘ متاع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے آدمی عارضی طور پر تھوڑے دن کے لیے فائدہ اٹھاتا ہے پھر وہ فائدہ ختم ہو جاتا ہے جیسے مسافر کا سامان، فرمایا: ﴿اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌo﴾ (التوبۃ: ۳۸) ’’کیا تم آخرت کے ہوتے ہوئے دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے، لیکن حیات دنیا کا سامان آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے۔‘‘ رہی موت جو دنیا کے نعمتوں اور لذتوں کو دنیا والوں سے ختم کر دیتی ہے، وہ ہمیشہ کے