کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 40
’’یہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کے اخیر نتیجہ کا جس دن اس کا آخری نتیجہ پیش آئے گا اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہنے لگیں گے کہ بے شک ہمارے رب کے رسول سچی سچی باتیں لائے تھے، تو کیا اب ہمارا کوئی سفارشی ہے جو ہماری سفارش کر دے، یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جا سکتے ہیں تاکہ ہم جو اعمال کیا کرتے تھے ان کے بر خلاف دوسرے اعمال کریں ۔ بے شک ان لوگوں نے اپنے کو خسارہ میں ڈال دیا اور ان کی افترا پردازی بیکار ہو گئی۔‘‘ فرشتوں کے وجود کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ فرشتے مخلوق نہیں بلکہ ہم انسان کے اندر اچھے اعمال کے وجود کو کہتے ہیں جیسا کہ فلاسفہ کا خیال ہے یہ سب صریحی کفر ہے جس سے اللہ کی کتاب اور رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کا انکار ہے اور جو بھی اس کا انکار کرے گا جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ سچا مومن وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی پیش کردہ ہر بات پر پختہ ایسا پختہ یقینی ایمان لائے کہ جس میں شک اور تردد کا شائبہ تک نہ ہو، خواہ اسے اس چیز کا اپنے مشاہدہ اور شعور سے ادراک ہو یا نہ ہو۔ اس لیے کہ انبیائے کرام محیر العقول غیبی خبریں اور معجزات لے کر آئے تھے۔ ۱۰۔ آخرت کے دن پر ایمان لانا: آخرت کے دن پر ایمان اعمال کی اصلاح و درستگی فرائض اور فضائل کی پابندی اور منکرات و رذائل سے اجتناب کی بنیاد ہے۔ یہی ایمان دل میں اللہ کی محبت اور اطاعت کے ذریعے سے اس کے تقرب کی جڑیں مضبوط کرتا ہے، انسان کی زندگی کو بہتر نظام کا پابند کرتا ہے اس طرح کہ وہ اپنے گناہوں سے ڈرنے لگتا ہے اور نیکیوں کے ثواب کا امید وار ہوتا ہے لیکن قیامت کے دن کے ثواب و عذاب، جنت و دوزخ کی تصدیق نہ کرنے سے اکثر برے اعمال کا ظہور ہوتا ہے اور جو شخص بھی اللہ اور اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا ہے، کیونکہ جو شخص ڈرے گا وہ آخر