کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 39
کوئی شخص اگر کسی چیز کو جانتا نہیں اور اس نے کا مشاہدہ نہیں کیا ہے تو اس کا مطلب یہ یہ نہیں کہ اس چیز کا وجود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جھٹلانے والوں کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعَلْمِہٖ وَ لَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَo وَ مِنْہُمْ مَّنْ یُّوْمِنُ بِہٖ وَ مِنْہُمْ مَّنْ لَّا یُوْمِنُ بِہٖ وَ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَo وَ اِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْٓؤُنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَo﴾ (یونس: ۳۹۔۴۱) ’’بلکہ ایسی چیز کو جھٹلایا جس کا اُن کو علم نہ تھا اور نہ ان کو اس تکذیب کا انجام معلوم ہوا۔ جو کافر ان سے پہلے ہوئے ہیں انہوں نے بھی ایسے ہی جھٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو ان ظالموں کا انجام کیسا برا ہوا۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو قرآن پر ایمان لے آئیں گے اور کچھ ایسے ہیں جو قرآن پر ایمان لے آئیں گے اور کچھ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور تمہارا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔ اگر اس کے بعد آپ کو جھٹلاتے ہیں تو کہہ دو میرے لیے میرا عمل تمہارے لیے تمہارا عمل۔ تم بری ہو میرے عمل سے اور میں بری ہوں تمہارے عمل سے۔‘‘ اس آیت میں لفظ تاویل سے مراد قیامت کا دن ہے جس دن نظروں سے غائب چیزیں ظاہر ہو جائیں گے اور اللہ رب العزت اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے تجلی فرمائے گا اور فرشتے باہر نکل آئیں گے اور جب اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں داخل ہوں گے۔ ذیل کی آیت میں بھی تاویل معنی لیا گیا ہے: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ یَوْم یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآئَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَ ضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَo﴾ (الاعراف: ۵۳)