کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 36
ہوں گے۔‘‘ حدیث صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح چاندنی رات میں چاند کو دیکھتے ہیں ، جس کے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے، لہٰذا ہو سکے تو آفتاب نکلنے اور ڈوبنے سے قبل کی نماز سے تھکومت، یعنی فجر اور عصر کی نماز۔‘‘ رہی بات دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی تو اس میں اختلاف ہے اور راجح قول یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، اللہ نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کی بابت فرمایا ہے کہ موسیٰ نے کہا: ﴿رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰینِیْ﴾ (الاعراف: ۱۴۳) ’’میرے رب مجھے دکھا دے کہ میں تیری طرف نظر کروں فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہ دیکھ سکو گے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ کہا نہیں ، نور کو میں نے دیکھا ہے یعنی ایک د بیز نور اس کے درمیان حائل رہا جو دنیا میں اللہ کو دیکھنے سے روکتا ہے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے جس نے تم سے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے بہت بڑا بہتان آپ پر باندھا، اور انہوں نے یہ آیت پڑھی: ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo﴾ (الانعام: ۱۰۳) ’’اور نگاہیں اس کو پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ بڑا باریک بین باخبر ہے۔‘‘ ۹۔ فرشتوں پر ایمان: اللہ اور ملائکہ پر ایمان لانا بھی اصول ایمان میں سے ہے، اللہ کا ارشاد ہے: ﴿لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ