کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 35
تھے اور خوب جانتے بھی تھے۔‘‘ قرآن اس لیے بھی کلام اللہ ہے کہ وہ اللہ کی صفت کمال ہے اور اللہ تعالیٰ کمال کے ساتھ موصوف ہے اور نقص و عیب سے پاک ہے، اس لیے اس کا کلام بھی مخلوق نہیں ہے۔ اب جو شخص کلام اللہ کو جھٹلائے یا کہے کہ قرآن مخلوق ہے، یا یہ ایک ایسی چیز ہے جو خود بخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر اتر آئی ہے تو ایسا کہنے والا کتاب اللہ کی تکذیب کر رہا ہے، اور اللہ نے اپنے رسولوں کو جو دین دے کر بھیجا ہے سب کو جھٹلا رہا ہے، اور یہ اس سرکش ظلم کے قول کی تائید ہے جس کی بابت قرآن نے یوں نقل کیا ہے: ﴿اِِنْ ہٰذَآ اِِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِo سَاُصْلِیْہِ سَقَرَo﴾ (المدثر: ۲۵۔۲۶) ’’اور یہ قرآن آدمی کا کہا ہوا ہے میں اس کو جہنم میں داخل کروں گا۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا: ﴿وَقَالُوْا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًاo قُلْ اَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِِنَّہٗ کَانَ غَفُوْرًا رَحِیْمًاo﴾ (الفرقان: ۵۔۶) ’’اور کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن بے سند باتیں ہیں ۔ جو اگلوں سے منقول ہوتی چلی آ رہی ہیں ، جن کو انہوں نے لکھوا لیا ہے پھر وہی اُن پر صبح و شام پڑھی جاتی ہے کہہ دیجئے کہ اس کو اُس ذات نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی سب باتیں چھپی باتوں کو جانتا ہے، بے شک وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ۸۔ آخرت میں اللہ رب العزت کا دیدار: ہمارا ایمان ہے کہ اہل ایمان آخرت میں اللہ رب العزت کا دیدار کریں گے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌo اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌo﴾ (القیامہ: ۲۲۔۲۳) ’’بہت سے چہرے اس دن با رونق ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے