کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 32
طرح اُس کی صفات بھی مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ، کوئی چیز اُس کے مثل نہیں وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اہل سنت اسی کے قائل ہیں جیسے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے جب ’’استواء‘‘ کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول ہے اور اس پر ایمان واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ اور یہی جواب نزول، وجہ، سمع اور بصر وغیرہ کے سوال میں بھی دیتے ہیں مثلاً کہتے ہیں ، وجہ (اللہ کا چہرہ) معلوم ہے کیفیت مجہول ہے اور اس پر ایمان واجب ہے، اسی طرح باقی صفات کے بارے میں بھی۔ جنہوں نے ان صفات کا انکار کیا اور کلام اللہ کی تکذیب کی وہ قرآن کو مخلوق کہنے پر مجبور ہوئے، وہ تشبیہ سے بھاگے اور تعطیل میں مبتلا ہوئے، اور کلام تو ایک صفت کمال ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر کمال کے ساتھ موصوف ہے، اور صفات میں کلام دراصل ذات میں کلام کی فرع ہے تو جس طرح اللہ کی ذات ایسی ہے جو مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ، اُسی طرح اس کی صفات بھی مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ ’’اس کے مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘ جو شخص ان صفات کے ظاہر پر ایمان لائے اور اُس کے علم اور تفسیر کو اللہ کی طرف سونپ دے وہ اچھا کرے گا۔ کیونکہ جتنا اس نے سنا اتنے پر وہ رک گیا، اور تعطیل و تحریف اور انحراف سے بچ گیا۔ اسی طرح علم کے بغیر خواہ مخواہ کلام کرنے اور تاویل کے ذریعہ اللہ کو اس کی صفات سے معطل کرنے اور اس کے کلام کو جھٹلانے سے بھی محفوظ رہا۔ فرمایا: ﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعَلْمِہٖ وَ لَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ﴾ (یونس: ۳۹) ’’اُنہوں نے اس کو بھی جھٹلا دیا جو اُن کے علم کی گرفت میں نہیں اور اس کا انجام بھی اُن کے سامنے نہیں آیا۔‘‘ اور کیا خوب کہا گیا: