کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 30
گناہ پرآمادہ کر دیتا ہے تو ایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے، اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ ۶۔اللہ کے رب ہونے پر ایمان لانا: ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو راضی ہوا اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی رسول ہونے پر۔‘‘ [1] اللہ کے رب ہونے پر راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ رب العزت کے وجود پر ایمان لائے اور اس کی تصدیق کرے کہ اللہ اکیلا ہے، فرد ہے، بے نیاز ہے، سارے جہان کا رب ہے، آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اس نے اپنی قدرت سے ساری مخلوق کو عدم سے وجود بخشا، اپنی نعمت سے ان کی پرورش کی اور کھانے پینے کی چیزیں اور حیوانات، میوے اور پھل، مال و دولت غر ض جن چیزوں کو ان کی ضرورت تھی سب پیدا کیا تاکہ اپنی زندگی میں وہ ان سے لطف اندوز ہوں اور بندگی رب کے لیے ان سے مستفید ہوں اور اخروی زندگی میں اس سے بہرہ ور ہوں ۔ ﴿کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا﴾ (سبا :۱۵) ’’اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کی بندگی کرو، اور اس کا شکر بجا لاؤ۔‘‘ لیکن جس کا یہ خیال ہو کہ آسمان و زمین اور اس کے اندر کی سب چیزیں خود بخود یا نیچر کے ذریعے سے پیدا ہو گئی ہیں تو ایسا شخص کافر ہے، ایسے لوگوں کو دہریہ اور نیچری کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ (معاذ اللہ!) اللہ کے بجائے ہر چیز کو نیچر ہی پیدا کرتا ہے۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ نیچر کیا چیز ہے؟ تو وہ لا جواب ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں نیچر کا وجود نہیں وہ معدوم شے ہے اور یہ تو ہر شخص جانتا ہے جس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ ’’عدم‘‘ کسی وجود کو پیدا نہیں کر سکتا۔ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخَالِقُوْنَo اَمْ خَلَقُوْا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بَل لَّا یُوْقِنُوْنَo﴾ (الطور: ۳۵۔۳۶)
[1] صحیح مسلم، الایمان، باب ذاق لہم من : ۱۶۰۔