کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 28
’’اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کر لیں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اُن کی راہ چھوڑ دو۔‘‘ صحابہ کرام زکوٰۃ کی ادائیگی کو اسلام کا حق سمجھتے تھے، جس کے لیے جہاد کرنا واجب ہے۔ اسی لیے مانعین زکوٰۃ سے قتال کو مباح قرار دے دیا تھا اور زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے لوگ ان کو مرتد سمجھتے تھے اور اسی بنا پر سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ((وَ اللّٰہِ لَاُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ فَہِیَ مِنْ حُقُوْقِ شَہَادَۃِ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔)) [1] ’’بخدا میں اُن لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کریں گے کیونکہ زکوٰۃ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے حقوق میں سے ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرائع اسلام مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حرام سے بچنا یہ سب اللہ علیم و حکیم کے نازل کر دہ ہیں ، اُس نے ان کو مشروع اور واجب کیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان میں سے اس کے بندوں کے معاد اور معاش کی کتنی مصلحتیں پوشیدہ ہیں ۔ یہ اللہ کے بندوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کے اسباب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ، نماز اور زکوٰۃ وغیرہ میں سے جس چیز کو بھی واجب کیا ہے اس کی مصلحت راجح اور منفعت واضح ہے۔ اسی طرح جتنی چیزیں حرام کیں ، مثلاً سود، زنا، شراب خوری، جوا سب کی خرابیاں راجح اور نقصانات واضح ہیں ۔ لہٰذا شرائع دینیہ پر عمل کی عادت اخلاق کو سنوارتی اور نسل کو پاک کرتی ہے اور کفر و اختلاف و نفاق و بدخلقی کو دور کرتی ہے اور عمل کرنے والے کو فرائض و فضائل سے مزین کرتی ہے ۔ منکرات و رذائل اخلاق سے دور رکھتی ہے۔ خصوصاً نماز، کہ وہ اللہ کریم و اکبر کی یاد دلاتی ہے اور فحشاء و منکر سے باز رکھتی ہے اور دل میں اللہ کی محبت اور جود و کرم کا بیج ڈالتی ہے اور کم ہمتی اور گھبراہٹ سے نفرت دلاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًاo اِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًاo وَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ
[1] تاریخ الخلفاء: ۱/ ۶۷۔