کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 277
((لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الاولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کا لا عیاد سیمونہ عرساً۔)) ’’اور یہ جاہل جو کچھ شہدا اور اولیاء کی قبروں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ہر گز جائز نہیں سجدہ کرنا اور ان کے گرد طواف کرنا۔ ان پر چراغ جلانا اور مسجدیں بنانا دو سال کے بعد عید اور میلوں کی طرح جمع ہونا اور اس کا نام عرس رکھنا وغیرہ۔‘‘ یہ وہ قاضی صاحب ہیں جن کا احترام ہر طبقہ اور ہر مکتب فکر کے لوگ کرتے ہیں اور سب کے نزدیک ایک جید عالم اور محقق شخص تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ لیکن جب رسول اللہ کی کلام اور ان کی سنت کا شعور و احترام اٹھ جائے تو پھر کسی بڑے سے بڑے عالم کی کوئی بات دل میں جگہ نہیں پکڑ سکتی۔ ائمہ کرام کے دو اقوال جو بالکل سنت کے موید اور شاہد ہیں ۔ مقلدین نہ انہیں مانتے ہیں نہ ہی ان پر ان کا عمل ہے۔ لیکن ان کی حنفیت پھر بھی بے داغ ہے، تمام اماموں نے قبریں پختہ کرنے اور ان پر مکانات بنانے سے منع کیا ہے، علامہ شامی اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : ((وعن ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ یکرہ ان یبنی علیہ بناء من بیت ارقبۃ ونحوذالک لِماروی جابر نہی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔)) [1] ’’امام صاحب نے فرمایا: قبر پر قبہ یا مکان بنانا منع ہے، جیسا کہ مسلم کی حدیث میں جابر سے روایت ہے۔‘‘ بزرگوں کے مقبرے کتنی وسیع و فراخ زمین میں پھیلائے گئے ہیں اور ان پر قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کس بے دردی کے ساتھ صرف کر کے ان پر عالیشان عمارات کھڑی کر دی گئی ہیں ۔ آخر اس اسراف پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل مل سکتی ہے۔ مرنے کے بعد ان بزرگوں کا اتنا وسیع رقبہ قبضہ میں رکھنا آکر آسمانی وحی کے کون سے حکم کی تعمیل ہے۔
[1] شامی، ص: ۶۳۷، ج: ۱۔