کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 274
قدر بھی ذرائع تھے۔ ان کے اصول و آداب آپ نے سمجھا دیے۔ عبادات کے پیمانے اور نفس انسانی کے افادہ اور قوت برداشت کے مطابق اس کے اوزان و انداز بھی روحانی طبیب نے مقرر کر دیے ہیں ۔ اب ایک شخص اٹھتا ہے، پانچ نمازوں کے بجائے دن میں چھ نمازیں پڑھتا ہے، چار رکعتوں کے بجائے پانچ رکعتیں ادا کرتا ہے۔ پچاس روزے رکھتا ہے اسی طرح ثواب و برکت کے لیے مختلف حیلے گھڑ لیتا ہے تو بتائیے یہ شخص ثواب یا نیکی حاصل کرے گا؟ جس نے شارع کے خلاف اپنی رائے سے کام چلایا یا گناہ و خطا کا مرتکب ہوا۔ آپ کے اسوۂ و ہدایت سے ہٹ کر حصول ثواب کی جملہ ایجادات کا یہی حکم ہے۔ ایسے لوگوں کے آغاز و انجام کا حال اور ان کی صحیح حیثیت معلوم کرائی جا چکی ہے۔ شریعت کا منشا یہ ہے کہ اسوۂ حسنہ سے آگے کوئی قدم نہ بڑھایا جائے اور ثواب و نیکی میں وہی امر داخل ہے۔ جسے اللہ کے پیغمبر کی پسندیدگی اور عمل کا شرف حاصل ہے۔ جو لوگ بدعات سے اجتناب نہیں کریں گے۔ وہ سخت خسارے میں رہیں گے۔ اگلی فصل میں ان بدعات کا ذکر کیا جائے گا۔ جس کے ذریعہ مسلمانوں کی اعتقادی اخلاقی اور فکری حالت تباہ و برباد ہوتی ہے۔ جنہیں دیکھ کر شیطان نے زندگی کی راہوں میں جگہ جگہ شرک کے کانٹے بکھیر دیے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بدعت کتنی ہی خطرناک اور موجب ضلالت سہی لیکن امت نے چن چن کر بدعات کو سڑ چڑھا لیا ہے، اور مذہبی پیشواؤں نے بڑھ کر ان پر نیکی و ثواب کے غلاف بھی چڑھا دیے ہیں ۔ کسی دینی کام کے آغاز سے پہلے یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ یہ اللہ کا حکم ہے یا رسول کی سنت ہے یا اس پر ائمہ مجتہدین اور علمائے حق کا اجماع ہے۔ ان میں سے اگر کوئی بات بھی نہ ہو تو پھر وہ ممنوعہ سرحد ہے جس میں گھومنا پھر نا خطر ناک ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم وہی امور پیش کر رہے ہیں ، جو اللہ کے حکم رسول کی سنت اور علمائے حق کے اجماع کے بالکل خلاف ہیں اور بد قسمتی سے علمائے سوء کے طفیل وہ مسلمانوں میں نیکی و ثواب کے نام سے رائج ہو گئے ہیں ، اور بعض تو شرک کا لازمی سبب بن گئے ہیں ۔