کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 273
مجھے پہچان لے گی، اور میں انہیں پہچان لوں گا۔ پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہو جائے گا، میں کہوں گا یہ تو میری امت کے لوگ ہیں ، کہا جائے گا، آپ نہیں جانتے کہ آپ کی وفات کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعات جاری کیں ، میں یہ بات سن کر کہوں گا جس نے میرے بعد دین میں تغیر و تبدل کیا اس کے لیے دوری نفرت اور ہلاکت ہے۔ [1] ایسے لوگ سوسائٹی میں قطعاً کسی احترام کے قابل نہیں ۔ دین کوئی کھیل نہیں جو بھی آئے تو اپنے ساتھ دین میں کوئی نئی چیزیں لے آئے، نیکی و ثواب کا معیار بدلتا رہے، اور روز افزوں بدعات کے ذریعہ مسلمانوں میں تفرقہ و انتشار پیدا کرتا رہے، اور ثواب کے دام سے سادہ لوح عوام کو عذاب میں پھنستا رہے۔ یہ لوگ باوجود اپنی نمائشی اور رسمی دینداری کے بے دین ہی رہے۔ الغرض اللہ و رسول ایسے لوگوں سے سخت بیزار ہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات اور اپنی ذاتی آراء سے کسی نیکی و ثواب کے کام کا ابتداء کیا۔ بدعت کے بارے میں ایک مثال: غور کیجئے، ڈاکٹر نے اپنے علم و تجربہ کی بناء پر ایک دوائی کی مقدار مثلاً ایک گرین مقرر کی ہے۔ جو شفا یابی کے لیے ضروری یا مریض کی قوت برداشت اور مزاج کے لحاظ سے مناسب ہے اب کوئی مریض ازخود یا کسی غیر ماہر کے کہنے پر وہ دوائی دویا چار گرین کی مقدار میں کھا لیتا ہے تاکہ جلدی شفا حاصل ہو جائے تو بتائیے وہ شفا پائے گا یا موت کی آغوش میں جائے گا، اسی طرح طرح ایک انجینئر کسی عمارت کے استحکام کے لیے چار ستون اور ایک چھت ضروری قرار دیتا ہے۔ لیکن ایک غیر انجینئر شخص آ کر پانچ ستون اور دوسری چھت تجویز کرتا ہے کہ اس طرح عمارت اور زیادہ مضبوط ہوگی، کیا غیر اہل فن کی رائے اس بارے میں قبول کی جائے گی؟ اسی طرح دینی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی مرضی کے مطابق تزکیہ نفس صفائی قلب اور پاکیزگی اخلاق کا ایک کامل نسخہ موزوں مقدار میں سکھا دیا ہے اور انسانی زندگی کی نجات و ترقی کا مکمل نقشہ پیش کر دیا ہے۔ نیکی و ثواب حاصل کرنے کے جس
[1] متفق علیہ حوالہ مشکوٰۃ، ص: ۴۸۸۔