کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 271
احناف کے بڑے پائے کے عالم گزرے ہیں ، اسی لیے اہل بدعت بھی ان روایات کو صحیح مانتے ہیں لیکن وہ اپنی بدعات پر روایت کی من مانی تاویلات کی شکر چڑھا دیتے ہیں ۔ نفلی نماز با جماعت: چاشت کی نماز کی فضیلت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث کے ساتھ ثابت ہے، لیکن نفلی نمازیں گھروں میں پڑھنا افضل فرمایا، تہجد یا چاشت، یا دوسرے اوقات کے سنن و نوافل، انہیں با جماعت اور تعیین مقام کے ساتھ ادا کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و عمل سے ثابت نہیں ، اسی لیے صحابہ کرام کے سامنے جب بھی ایسا کوئی عمل یا انہوں نے اسے بدعت ظُلمًا اور قابل نفرت ہی تصور کیا ہے۔ بخاری و مسلم میں ایسا ہی ایک واقعہ ملتا ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد میں داخل ہوئے: ((فَاِذَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہ جَالِسٌ اِلٰی حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ الضُّحٰی فِی الْمَسْجِدِ فَسَئَلْنَا عَنْ صَلَاتِہِمْ فَقَالَ بِدْعَۃٌ۔)) [1] دیکھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے قریب بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں ہم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان لوگوں کی نماز کے بارہ میں معلوم کیا تو آپ نے فرمایا: یہ صاف بدعت ہے۔ امام نووی نے اس روایت کی شرح میں واضح فرمایا کہ نماز چاشت بدعت نہیں کہی گئی بلکہ نماز چاشت کو اجتماع و اہتمام سے مشہور کر کے پڑھنا بدعت ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہی مراد ہے۔ [2] صرف دو تین واقعات کا بطور نمونہ ذکرکیاگیا ہے ورنہ ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جو بہ ظاہر عبادت اور نیکی شمار ہوتے ہیں ۔ لیکن صحابہ کرام اور تابعین عظام نے ان سے نفرت کا اظہار کیا۔ کسی خاص تعین خاص ہیت کے ساتھ خاص مقامات پر کسی عبادت و وظیفہ کی ادائیگی جس کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی نہ دے رہی ہو۔
[1] بخاری، ج: ۱، ص: ۲۳۸۔ مسلم، ج: ۱، ص: ۴۰۹۔ [2] نووی، ج: ۱، ص: ۱۰۹۔