کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 270
نے سمجھا اور سکھایا اور صحابہ کرام نے آپ سے سیکھا، اسی بناء پر صحابہ کے زمانہ میں بدعت پنپ نہیں سکتی۔ لیکن آج کل اکثر مساجد میں بدعت کے شیدائیوں نے اسے زندہ کر رکھا ہے۔ اجتماعی درود بالجہر: کوئی مسلمان بھی درود کی اہمیت اور فضیلت کا انکار نہیں کر سکتا۔ قرآن میں اس کا حکم موجود ہے: ﴿صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْ تَسْلِیْمًا﴾ احادیث میں اس کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے لیکن یہ دورد بھی اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے طریقہ سے آزاد ہو کر پڑھا جائے تو وجہ فضیلت، موجب عذاب بن جائے گی۔ علامہ بزازی حنفی ذکر بالجہر کا مسئلہ نقل کرتے ہیں : ((عن فتاوی القاضی ان حرام طباسح عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ انہ اخرج جماعۃ من المسجد یہلون ویصلون علی النبی جہراً وقال مَا اراکم الا مبتدعین۔)) [1] ’’قاضی صاحب کے فتاویٰ سے نقل کیا ہے کہ اونچا ذکر کرنا حرام ہے، کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت کے ساتھ یہ ثابت ہو چکا ہے۔‘‘ انہوں نے ایک جماعت کو محض اس وجہ سے مسجد سے نکالا تھا کہ وہ بلند آواز سے کلمہ لا الہ الا اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتی تھی، اور یہ بھی فرمایا: میں تمہیں بدعتی خیال کرتا ہوں ۔ یہ تو خیرالقرون میں ایک صحابی کا فیصلہ و عمل تھا، اہل بدعت کے حق میں کہ انہیں ایک منکر اور خلاف سنت امر پر ٹوکا اور مسجد سے باہر نکال دیا۔ لیکن آج کل خیرالقرون کی یاد قائم رکھنے والوں اور سنت کی حفاطت کرنے والوں کو وہابی کہہ کر مسجدوں سے نکال دیا جاتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ مل کر اونچا درود نہیں پڑھتے یا اونچا ذکر نہیں کرتے ہو، انقلاب ہیں زمانے کے: تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا مذکورہ روایت علامہ قاضی بزازی شامی اور حموی سبھی کے نزدیک صحیح ہے اور یہ سب
[1] مسند شامی جلد: ۵، ص: ۳۵۰۔