کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 27
جس سے نماز کا چھوڑنا جائز ہو، اس لیے کہ نماز تو کسی حالت میں بھی ساقط نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ آدمی اس کا مکلف ہی نہ رہ سکے مثلاً پاگل ہو جائے وغیرہ۔ ایسا عذر لنگ کرنے والے اگر مخلص ہوتے اور ان کا عمل صالح اور عزم صادق ہوتا تو اپنی طہارت کا اہتمام کرتے جو نماز کی شرط ہے اور جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں پھر وہ نماز ادا کرتے ’’لیکن اللہ نے ان کا راہ حق میں نکلنا پسند کیا اور کہہ دیا گیا کہ معذوروں کے ساتھ تم بھی بیٹھے رہو۔‘‘ نماز ہی کی طرح زکوٰۃ کا مسئلہ بھی ہے، صحیحین میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَائَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ اِلَّا بِحَقِّہَا۔)) [1] ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں ، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں جب وہ ایسا کریں گے تو مجھ سے اپنا خون اور مال بچا لیں گے سوائے اس کے کہ اس کا بہانا حق ہو جائے۔‘‘ اس حدیث کی تصدیق کتاب اللہ کی اس آیت سے ہوتی ہے: ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ﴾ (التوبۃ: ۱۱) ’’اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہو جائیں گے۔‘‘ دوسری آیت میں یوں فرمایا: ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾(التوبۃ: ۵)
[1] صحیح بخاری، بدء الوحی، فان تابوا و اقامو……، ح: ۲۵۔ صحیح مسلم: ۱۳۵۔