کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 269
((والیسن للمصلی اذا کان منفرداً وماموماً کما فی المحمؤ عن النص بعد السلام عن الصلوٰۃ اکثار ذکر اللّٰہ تعالی والدعاء سراً لاخبار الصحیح۔)) ’’اور نماز کے لیے جبکہ وہ تنہا ہو یا مقتدی مسنون ہے یہ بات کہ سلام پھیر کر کثرت سے دعا اور ذکر اللہ کرے خاموشی کے ساتھ کیونکہ احادیث میں ایسا ہی آیا ہے۔‘‘ کتاب الاعتصام علامہ شاطبی اورمسند دارمی میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ صحابہ کرام کے زمانے میں کوفہ میں ایک ایسی جماعت معلوم ہوئی جس کا طریقہ یہ تھا کہ نماز کے بعد ایک مخصوص وقت میں اجتماع ہوتا، اور میر مجلس کہتا ’’ہَلِّلُوْا مِأَۃً‘‘ سب لوگو سو سو مرتبہ کنکریوں پر لا الٰہ الا اللہ پڑھو، پھر وہ کہتا سَبِّحُوْا مِأَۃً، ’’سب سو سو بار سبحان اللہ کہو پھر امیر مجلس کہتا حَمِّدُوْامِأَۃً سب سو سو مرتبہ الحمدللہ پڑھو، ان دنوں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ کے گورنر تھے اتفاقاً ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا، اور اس بدعت کا تذکرہ ابن مسعود سے کیا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تم ان کنکریوں پر کیا پڑھتے ہو، اہل حلقہ نے بتایا کہ ہم ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔‘‘سو سو بار پڑھتے ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں سے کچھ نقصان نہ ہوگا۔ تم پر افسوس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کس قدر جلدی ہلاکت میں پڑ گئے ہو۔ حالانکہ صحابہ کرام بکثرت موجود ہیں اور تم نے گمراہی کا دروازہ کھول لیا۔[1] باختصار قلیل، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے گورنر کی حیثیت سے اس بدعت کو بند کرا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس اجتماعی شکل مخصوص ہیئت مخصوص مقام اور خاص طرز پر ذکر کرنے کو بدعت شمار کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح مسجدوں میں اکٹھے ہو کر تعیین وقت اور متعین شکل کے ساتھ ذکر نہیں کیا جاتا تھا۔ قرآن کا مقصدحضور صلی اللہ علیہ وسلم
[1] دارمی، ص: ۳۸۔