کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 268
ملا علی قاری نے نقل کیا ہے: ((واستدل البیہقی وغیرہ مطلب الاسرار بخیر الصحیحین انہ علیہ السلام امرہم یترک ما کانوا علیہ من رفع الصوت بالتہلیک والتکبیر وقال انکم لا تدعون اصم ولا غائِبًا انہ معکم انہ سمیع قریب۔)) [1] پھر خود علامہ قاری نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ نماز کے بعد والی دعاؤں اور تسبیحوں میں ہی نہیں تمام اذکار میں اسرار و اخفا سنت ہے، البتہ نبی کریم کے قول و فعل سے جن مواقع پر جہر کا ثبوت ملتا ہے وہ مستثنیٰ ہیں ، مثلاً: تلبیہ وغیرہ حج کے موقع پر۔ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں : ’’ابن بطال نے کہا کہ جن فقہی مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان کے پیرو بھی اس بات پر متفق میں کہ ذکر و تکبیر میں آواز بلند کرنا مستحب نہیں ۔‘‘ [2] صاحب در مختار لکھتے ہیں : ’’جن لوگوں کا مقصود سیکھنا سکھانا ہو ان کے علاوہ سب کے لیے مسجدوں میں ذکر کے لیے آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔‘‘ [3] علامہ شیخ محمد علی مکی رسالہ مسلک السادات الی سبیل الدعوات میں لکھتے ہیں : ((اعلم انہ لا خلاف بین المذاہب الا ربعۃ فی مذہب الدعاء سراً۔)) ’’چاروں مذاہب کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دعا سراً ہی مستحب ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر کی شرح حجاب میں ہے:
[1] مرقات، ج: ۲۔ باب الذکر بعد الصلوٰۃ۔ [2] باب الذکر و الصلوٰۃ۔ [3] فتح الملہم، ج: ۲، ص: ۱۷۱۔