کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 267
’’اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی کے ساتھ پکارو، حد سے گزرنے والوں کو وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘ اللہ سے ایسی بات طلب کرنا جسے اس نے نہ کرنے کا وعدہ کیا، مثلاً: نبی بننے کی دعا یا مشرک کے حق میں دعا یا اللہ سے کفر و فسق کی امداد کے لیے دعا، حد سے تجاوز ہے، یہ معنی علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عبودیت میں لکھا ہے، دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ اخفا کی بہ نسبت جہر حد سے تجاوز ہے اور اس قسم کا تجاوز بھی اسے پسند نہیں ۔ (۲)… ﴿وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَہْرِ﴾ (الاعراف: ۲۰۵) یہاں مطلق ذکر کے لیے جہر کی صاف ممانعت موجود ہے۔ پھر اللہ نے اپنی یہ صفت بھی بیان فرمائی ہے: (۱)… ﴿وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَ جَہْرَکُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَo﴾ (الانعام: ۳) ’’وہ حاکم ہے آسمانوں اور زمینوں میں اور وہ تمہارے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اس کا بھی علم رکھتا ہے۔‘‘ (۲)… ﴿اِِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَمَا یَخْفٰیo﴾ (الاعلیٰ: ۷) ’’ظاہر اور خفیہ کا عالم بھی وہی ہے۔‘‘ ﴿لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء: ۱۴۸) اللہ تعالیٰ کی یاد سراً ہی بہتر ہے جس میں آواز نہ ہو۔ بخاری و مسلم میں ایک روایت آتی ہے: جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جہر اور رفع صوت سے یہ کہہ کر منع فرمایا، علامہ قاری نے نقل کیا ہے: ((اِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ اَصَحَّ وَلَا غَائِبًا اِنَّہٗ مَعَکُمْ اِنَّہُ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ۔))