کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 266
اس کے دو ہی نتیجے نکلتے ہیں : ۱۔ یا تو ہمارا دین ہی کامل نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے امور خیر اس میں چھوٹ گئے ہیں ۔ ۲۔ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ خیانت کی پورا پورا دین امت کو نہیں پہنچایا۔ اس لیے آپ کا عمل بھی ناقص ٹھہرا۔ نیکی اور بھلائی کے بہت سے اعمال اور وظائف ادھورے رہ گئے۔ جنہیں اصحاب بدعت نے آ کر مکمل کیا۔ جو شخص بھی کوئی بدعت اختیار کرتا ہے وہ اللہ کے علم ہدایت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل منور کو ناقص سمجھتا ہے۔ بدعت سے نفرت کا ایک واقعہ: عید سے قبل نوافل پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے ثابت نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص عید کی نماز سے پہلے نوافل پڑھنا چاہتا ہے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے منع فرمایا، اس پر اس شخص نے کہا: امیر المومنین! میں سمجھتا ہوں مجھے نماز پڑھنے سے اللہ سزا نہ دے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کسی فعل پر بھی ثواب نہ دے گا۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ عمل کیا اور نہ اس کی ترغیب دی ہو تو تیری نماز عبث فعل ہوگا جو حرام ہے اور شاید کہ تجھے اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مخالفت کی وجہ سے سزا و عذاب دے۔ [1] اجتماعی ذکر بالجہر: ذکر اللہ کی فضیلت مسلم ہے۔ ذکر الٰہی چونکہ تعلق باللہ کا ابتدائی واسطہ ہے اس لیے اسے تمام اعمال حسنہ پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن یہی ذکر اگر ایسے طریقے سے پڑھا جائے، جس کی مثال خیر القرون میں نہ ملتی ہو تو پھر یہ تریاق بھی انسان کے حق میں زہر قاتل بن جاتا ہے، ذکر ہو یا دعا اس کے آداب خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کر دیے ہیں ، فرمایا: (۱)… ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo﴾ (الاعراف: ۵۵)
[1] نظم البیان، ص: ۷۳۔ بحوالہ منہاج۔