کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 265
ہو، اور امت کی نجاح و فلاح یا ثواب و برکت کا سبب ہو، فطرت انسانی اپنے ارتقا و بہبود اور فوز و کامرانی کے لیے۔ بھلائیوں اور خوبیوں کو جس قدر بھی سمیٹ سکتی ہے، اور جس ممکن طریق سے حاصل کر سکتی ہے وہ سب کی سب اللہ کے محبوب نے اپنے اسوۂ و عمل سے سکھا دی ہیں خیر و برکت کا کوئی اصول باقی نہیں رہا، جسے بعد میں علماء و مشائخ یا امام و مجتہد آ کر پورا کریں گے۔ تکمیل ایمان اور حصول نجات کے لیے آپ کی پوری زندگی ہمارے سامنے ہے اور جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بالکل کافی ہے۔ اب کیا ضرورت باقی رہ گئی ہے جس کے لیے ہم زید عمر کی طرف لپکیں ۔ یا ان کے اقوال و اعمال پر جھکیں ، اور قرآن و حدیث کو پس پشت ڈال دیں ۔ سنت کی ضد بدعت ہے: جہاں بدعت ہوگی وہاں سے سنت اٹھ جائے گی اور جہاں سنت ہوگی وہاں بدعت نہیں پھٹک سکتی، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَا اَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَۃً اِلَّارُفِعَ مِثْلُہَا مِنَ السَّنَّۃِ فَتَمَسَّکَ بِسُنَّۃٍ خَیْرٌ مِنْ اِحْدَاثِ بِدْعَۃٍ۔)) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : کوئی قوم بدعت ایجاد نہیں کرے گی، مگر اسی مقدار میں سنت ان سے اٹھا لی جائے گی۔ سنت پر سختی سے قائم رہنا بدعت رائج کرنے سے بہر حال بہتر ہے۔‘‘ شیطان نے عبادت گزار اور نیکی پسند حضرات کو گمراہ کرنے کے لیے خیر و ثواب زیادہ مقدار میں فراہم کرنے کی غرض سے بعض بدعات و محدثات سکھائیں ۔ بہ ظاہر ایسے اعمال کی شکل و صورت اچھی بھلی معلوم ہوتی ہے اور مبتدع کی نیت بھی بخیر ہوتی ہے۔ لیکن شارع نے تکمیل و اصلاح انسانیت اور تعمیر و ارتقائے آدمیت کے لیے ایسا کوئی کام باقی نہیں چھوڑا۔ جس کی تعلیم و ہدایت کی وضاحت نہ فرما دی ہو، جو شخص دین میں کوئی بدعت جاری کرتا ہے
[1] مشکوٰۃ، ص: ۳۱، ج: ۱۔