کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 264
فاسد بدعات کی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ جب ان کی اصلاح کی اور کوئی صورت ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا تو کیا جائے کہ ایسے گمراہ و مبتدع حضرات کی مجالس سے اجتناب اور ان سے ملنا جلنا ترک کر دیا جائے۔ ان سے معاشرتی اور مجلسی بائیکاٹ تو چنداں مشکل نہیں ۔ [1] ہر بدعت کسی دینی حکم کی تحریر و تفسیر کا نتیجہ ہے یہود و نصاریٰ کے احبار رہبان نے تمام بدعات تحریف کلام الٰہی کی کوکھ سے نکالی تھیں آج مسلمان بھی انہیں کے نقش قدم پر گامزن ہیں ۔ دین کامل ہو چکا: ارشاد الٰہی ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ آج کے دن تمہارا دین مکمل ہو چکا، اس کے بعد تمہیں کسی دین کی ضرورت نہ ہوگی اور نہ اس میں آئندہ کسی کمی بیشی کی گنجائش رکھی گئی ہے علم دین قرآن میں موجود ہے اور اس کا عمل سیرت نبوی میں آج امت کے پاس، علم کامل (قرآن) اور عمل کامل (سنت نبوی) موجود ہے۔ اس لیے اب نہ کسی نئے دین کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے نبی کی۔ رشد و ہدایت کا کامل دین قرآن و حدیث کی صورت میں ہر وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ فلاح و ترقی اور نجات و سعادت کا علم قرآن پر ختم ہو، اور عمل کامل اس عبد کامل کی مقدس زندگی میں جھلمل جھلمل کرتا نظر آتا ہے۔ جس کی تعریف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی یہ سنی گئی ہے: ((کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ)) ایک مسلمان کی زندگی کے لیے علم و عمل کے یہ آفتاب و مہتاب بالکل کافی ہیں ، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ہدایت و نجات کے لیے قرآن و سنت کافی ہیں ۔ تم جس قدر بھی مضبوطی کے ساتھ ان پر عامل رہو گے، گمراہی کی پرچھائیں تمہارے قریب بھی نہ پھٹکے گی، اور اعتصام تمسک بالسنۃ میں جس قدر بھی کمزوری و کوتاہی ہوگی، اسی قدر منزل حق اور طریق ہدایت سے بعد پیدا ہوتا جائے گا، یہ ہے دین کامل جس میں کسی اضافہ و ترمیم کی ضرورت نہیں ۔ اکمال دین کے بعد اب دین و عمل میں جو بھی نئی صورت سامنے آئے گی۔ وہ احداث ہی کی ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوق عمل اور محبت الٰہ نے ایسا کوئی فعل اور ایسی کوئی ادا رہنے نہیں دی۔ جو اللہ تعالیٰ کو پسند
[1] تفسیر امام شوکانی، ص: ۲/۱۲۲۔