کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 261
’’آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمرہ، جہاد، فرضی اور نہ نفلی عبادت قبول کرتا ہے اور وہ گوندھے ہوئے آٹے سے بال کی طرح اسلام سے نکل جاتا ہے۔‘‘ بدعتی کی توبہ قبول نہیں : ((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم اِنَّ اللّٰہَ حَجَبَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ۔)) [1] ’’اصحاب بدعت کی قبولیت توبہ کے درمیان، بدعت خود ایک بہت بڑا حجاب ہے۔‘‘ پھر یہاں تو بدعتی کو توبہ کی توفیق و سعادت ہی نہیں ملتی۔ کیونکہ وہ بدعات و محدثات کو بزعم خود، فعل حسن اور باعث ثواب سمجھ کر ادا کرتا ہے، اور تمام عمر فریب نیت میں پھنسا رہتا ہے۔ اس لیے یہاں توبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ منکرات اور خطیئات تو اس لیے معاف ہو سکتی ہیں کہ ان کا عامل خطا و گناہ سمجھ کر کرتا ہے اور پھر توبہ و اناب اختیار کر کے آئندہ ان سے باز رہنے کا عہد کرتا ہے، غفور رحیم اسے معافی دے دیتا ہے، لیکن اصحاب بدعت کا حال تو یہ ہوتا ہے: ﴿وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا﴾ وہ اپنے خیال میں ان افعال کو اچھا اور موجب ثواب سمجھ کر اختیار کرتے ہیں ، حالانکہ فی الواقع وہ خلاف سنت ہونے کی وجہ سے منکرات ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان کے نزدیک ایسے اچھے کاموں سے تائب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((واما اہل السنۃ والجماعۃ فیقولون کل فعل و قول لم یثبت عن الصحابۃ فہو بدعۃ لانہ لو کان خیراً لسبقونا الیہ لانہم لم یترکوا، خصلۃ من خصال الخیر الا وقد بادروا الیہا!۔)) ’’اہل سنت والجماعت فرماتے ہیں : جو قول و فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کبار سے
[1] طبرانی عن انس بن مالک۔