کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 26
مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور یہ اکثر تاجروں اور مال داروں کی عادت ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہیں : ﴿وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًاo اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾ (النساء: ۱۵۰۔۱۵۱) ’’اور کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے کچھ حصوں پر تو ایمان لائیں گے اور کچھ کا انکار کریں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کی درمیانی راہ اختیار کر لیں یہی لوگ پکے کافر ہیں ۔‘‘ آدمی پکا مسلمان تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب پورے اسلام کو نہایت عزم محکم کے ساتھ اختیار کرے۔ آخر وہ شخص کیسے مسلمان ہو سکتا ہے جو رمضان کا روزہ تو رکھے لیکن فرض نماز کو چھوڑنے پر اصرار کرے۔ جب کہ نماز اس کا ستون ہے فحشاء اور منکر سے روکنے والی ہے اور یہ ہر انسان کی وہ آخری متاع ہے کہ جو ضائع ہوتی ہے تو اس کے بعد تو نہ اسلام باقی رہتا ہے نہ دین، لہٰذا جو مومن اس کو واجب سمجھتا ہے وہ کبھی اس کو چھوڑنا جائز نہیں سمجھے گا، جیسا کہ حدیث صحیح میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ مَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ، وَ فِیْ رِوَایَۃٍ، اَلْعَہْدُ الَّذِیْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَہُمُ الصَّلٰوۃُ مَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ اَشْرَکَ۔)) ’’آدمی اور کفر کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہی کافی ہے جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے کفر کیا۔ دوسری روایت میں ہے، وہ عہد جو ہمارے اور کفار کے درمیان ہے وہ نماز ہے جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے شرک کیا۔‘‘ اس لیے کہ اسلام یہ ہے کہ آدمی اللہ پر ایمان لا کر اس کے سپرد ہو جائے اور نماز و روزہ و زکوٰۃ ادا کر کے اس کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔ کچھ لوگ نماز نہ پڑھنے کے لیے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اُن کے کپڑے اور جسم پاک و صاف نہیں ہیں ۔ حالانکہ یہ ایسا عذر نہیں