کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 259
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خواہشات و اعمال کی شکل میں ایجاد ہوئی ہو۔‘‘ (۴)… ((وَالْبِدْعَۃُ فِی الْاَصْلِ اِحْدَاثٌ اَمْرٌ لَمْ یَکُنْ فِی زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔)) [1] ’’بدعت دین میں دراصل ایسی نئی ایجاد کو کہتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی۔‘‘ (۵)… ((وَالْبِدْعَۃُ اَصْلُہَا مَااَحْدَثَ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ سَابِقٍ وَتَطْلُقُ فِی الشَّرْعِ فِی مُقَابَلَۃِ السُّنَّۃِ فَتَکُوْنُ مَذْمُوْمَۃٌ۔)) [2] ’’بدعت اصل میں اسے کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو، اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا وہ مذموم ہی ہوگی۔‘‘ بدعت کی تعریف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی: ((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔)) (بخاری و مسلم عن عائشہ رضی اللّٰہ عنہا ) ’’جس کسی نے ہمارے معاملہ میں کوئی سی نئی بات نکالی تو وہ مردو ہوگی۔‘‘ ’’معاملہ‘‘ سے مراد دین ہے اور علمائے محققین کا اس پر اجماع ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبے میں فرمایا کرتے تھے: ((خَیْرُ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَ خَیْرُ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم وَشَرَّالْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَفِی النَّسَائِیِّ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔)) [3]
[1] عمدۃ القاری، ج: ۵۔ ص: ۳۵۶۔ [2] فتح الباری ابن حجر، ج: ۴۔ ص: ۲۱۹۔ [3] مشکوٰۃ، ج: ۱، ص: ۲۷۔