کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 258
بدعات کا بیان شرک کے بعد بدعت انسانی عبادات کے لیے پیام غارت گری ہے۔ اس لیے اس سے بھی واقفیت نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلے مختصراً اس کی لغوی تعریف لکھی جائے گی اس کے بعد احادیث سے اس کی تشریح کی جائے گی۔ وباللّٰہ التوفیق! بدعت کا لغوی معنی: (۱)… ((وَالْبِدْعَۃُ فِی الْمَذْہَبِ اِیْرَادُ قَوْلٍ لَمْ یَسُنُّنْ قَائِلُہَا اَوْ فَاعِلُہَا فِیْہِ لِصَاحِبِ الشَّرِیْعَۃِ وَاَمَاثِلُہَا الْمُتَقَدِّمَۃِ وَاُصُوْلُہَا الْمُتَّفِقَۃُ…۔)) [1] ’’مذہب میں بدعت کا اطلاق ایسے قول پر ہوتا ہے جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کے نقش قدم پر نہ چلا ہو، اور شریعت کی پہلی مثالوں اور اس کے محکم اصولوں پر وہ گامزن نہ ہوا ہو۔‘‘ (۲)… ((وَالْبِدْعَۃُ الْحَدْثُ فِی الدِّیْنِ بَعْدَ الْاِکْمَالِ!)) [2] ’’دین کے کامل ہونے کے بعد کسی نئی بات کا حدوث بدعت ہے۔‘‘ (۳)… ((بِدْعَۃٌ بِالْکَسْرِ اَلْحَدِیْثُ فِی الدِّیْنِ بَعْدَ الْاِکْمَالِ اَوْ مَااسْتُحْدِثَ بَعْدَ النَّبِیِّ مِنَ الْاَہْوَائِ وَالْاَعْمَالِ…!)) [3] ’’بدعت ایسے فعل کو کہا جائے گا جو تکمیل دین کے بعد نکالا گیا ہو، یا وہ بات جو
[1] مفردات امام راغب، ص: ۳۷۔ [2] امام محمد بن ابی بکر رازی مختار الصحاح، ص: ۲۸۰۔ [3] قاموس، ج: ۲، ص: ۴۔