کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 254
عورتوں پر اس کے مہلک اثرات کا اپنی مجلسوں میں اور عام گفتگوئوں میں برابر ذکر کرتے ہیں ۔ جیسے یہ کوئی جنگ ہے جو ان کے شہروں اور ان کے بال بچوں کو تباہ کر رہی ہے اور اس کا نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔ اور مہلک اثر پھیلتا جا رہا ہے۔ ان گرم علاقوں میں بھی جیسے نجد و حجاز اور خلیج اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ۔ جب کوئی نوجوان بچپنے میں شراب کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کی عمر ابتداء شباب ہی میں گھٹ جاتی ہے۔[1] اس طرح کہ وہ بیس، تیس سال سے آگے تک نہیں پہنچ پاتا اور وہ کثرت شراب کی بناء پر جلد ہلاک ہو جاتا ہے۔ شراب نوشی معاصی کا وہ بھنور ہے جس میں پڑنے والا توبہ کی بغیر نجات نہیں پاتا۔ اور آدمی بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ پاک دامنی، عزت اور حسن خلق کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن جب وہ شراب پینے لگتا ہے اور نشہ اس کے دماغ میں سرایت کرتا ہے تو وہ اچھی عادات سے محروم ہوکر برے اخلاق کا عادی ہو جاتا ہے اور اپنے اقرباء اور ہم نشینوں سے بھی گھبرانے لگتا ہے۔ اس کے چہرہ پر مصیبت و بیماری کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ گھر والوں پر اس کی درندگی کا اثر قائم ہو جاتا ہے اس کو لوگوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ اس طرح وہ زندگی بھر اس تکلیف دہ عادت کا غلام بن جاتا ہے۔ وہ ا س سے چھٹکارا چاہتا ہے لیکن بے بس رہتا ہے۔ یہی عادت اس کی اولاد تک میں سرایت کر جاتی ہے کیونکہ وہ بھی اس بری عادت اور طریقہ کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ ۱۰۔ شراب کی در آمد اور تجارت بے رحمی اور خود غرضی کا کام ہے: جو لوگ شراب کے نقصانات اور سوسائٹی اور عورتوں اور جوانوں کے اخلاق کی بربادی کو دیکھتے ہیں پھر بھی اس کی تجارت کرتے ہیں اور خفیہ طریقہ سے شہر میں اس کو لانے کا بندوبست کرتے ہیں جبکہ وہ مسلمان بھی ہیں تو ایسے لوگوں میں نہ دینی غیرت ہے نہ وطنی حمیت،
[1] بیمہ کمپنیاں جب کسی شخص کی زندگی کا بیمہ کرنا چاہتی ہیں تو اچھی طرح تحقیق کرتی ہیں کہ وہ شرابی تو نہیں ۔ اگر ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ شرابی ہے تو اس کا معاہدہ نہیں کرتیں ۔ خصوصاً معاملہ اگر کسی نوجوان کا ہو اس لیے کہ وہ جانتی ہیں کہ اس کی عمر عام عمر سے پہلے ہی ابتدا شباب میں ختم ہو جائے گی اور کمپنی کو اس کی زندگی کے خاتمہ سے خسارہ ہوگا کیونکہ شراب اس کی جلد ہلاکت کا باعث ہے۔