کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 252
جائے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے شراب نوشی کی سزا کوڑا مارنا اپنے نبی پر مشروع فرمایا تاکہ اس حد کا اجراء شراب نوشی جیسے جرم سے باز رہنے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہو، کیونکہ اس قسم کے تمام جرائم کے خلاف جنگ کرکے ان کو مٹانا اور سوسائٹی کو ان سے پاک کرنا اسلام کا بنیادی مقصد ہے اور اسی لیے اللہ نے خون کی حفاظت کے لیے قصاص اور نسب و آبرو کی حفاظت کے لیے زنا کی سزا (رجم) اور مال کی حفاظت کے لیے چور کا ہاتھ کاٹنا مشروع فرمایا ہے، تاکہ امن قائم رہے اور ظلم و زیادتی کا دروازہ بند ہو جائے اور شراب خوری کی سزا کوڑے مارنا اس لیے مشروع فرمایا تاکہ عقل و روح اور جسم و سوسائٹی سب کی حفاظت ہوسکے۔ اس بارے میں اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾ (النور: ۲) ’’یعنی اور نہ پکڑے تم کو ان کے سبب نرمی اللہ کے دین کے بارے میں اگر تم اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اور زنا کی حد کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (النور: ۲) ’’اور ان کی سزا کی جگہ مومنوں کے ایک گروہ کو حاضر رہنا چاہیے۔‘‘ کوڑے مارنے کے بجائے جیل کی سزا دینا یا قید کی مدت کو بڑھا دینا اور حد جاری کرنے کے بجائے مالی جرمانہ کرنا سزا کا بدل نہیں ہوسکتا اس لیے کہ کوڑا مارنا جرم کا حقیقی کفارہ ہے جس سے مجرم کو جرم کے دوبارہ ارتکاب کی ہمت نہیں ہوتی اور عوام الناس بھی اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ نیز جیل کی سزا سے مجرم کے معصوم، بے گناہ اہل و عیال کو نقصان پہنچتا ہے، لیکن کوڑا مارنے کی سزا صرف مجرم کی حد تک محدود رہتی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ کوڑا مارنے میں مجرم کی رسوائی بھی ہے اور جو اپنی عزت نہیں کرتا اس کی عزت نہیں کرنی چاہیے اور جس کو اللہ ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں اور جس زمین میں حد قائم کی جاتی ہے