کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 248
جس چیز کو لوگ بیئر کہتے ہیں جس میں الکحل نہیں ہوتی وہ بھی یقینا شراب ہے۔ کیونکہ حرام شراب کے تمام اوصاف اس پر صادق آتے ہیں ۔ چنانچہ جانچ اور تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے دو گلاس پینے سے نشہ ہوتا ہے اور یہ ایک صحیح ثابت شدہ حقیقت ہے، اور بیئر کی بوتل پر یہ لکھنا کہ ’’بیئر الکحل‘‘ ہے۔ عوام میں اس کو رواج دینے کے لیے ایک فریب و دھوکا ہے، ورنہ اس میں نشہ آور الکحل ضرور ملی ہوتی ہے۔ جو قطعاً حرام ہے اور وہ بالکل شراب کے حکم میں ہے، یہی حکم تریاق، حشیش، اور دوسرے نشہ آور نئے مشروبات کا بھی ہے ان تمام مشروبات میں ہم کو اس شرعی میزان کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم [1]کا ارشاد ہے: ((مَا اَسْکَرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ وَہُوَ خَمْرٌ مِنَ اَیِّ شَیْئٍ کَانَ)) [2] ’’جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے اور اس نشہ آور چیز کا حکم شراب کا ہے چاہے جس چیز سے بنی ہو۔‘‘ شراب اس لیے حرام کی گئی کہ اس سے مختلف قسم کے نقصانات پیدا ہوتے ہیں ، اس کا نقصان روح، عقل، جسم، نسل اور مال و صحت اور سوسائٹی سب پر پڑتا ہے، اس سے عمر گھٹتی ہے اور وہ اسرار کا پردہ فاش کرتی ہے اور اس سے مختلف قسم کے نقصانات اور بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور عقل کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا کر ظلم و سرکشی کی طرف لے جاتی ہے اور تکبر اور فسق و عصیان کی انتہا تک پہنچا دیتی ہے۔ اس طرح کہ ایک گرے پڑے معمولی آدمی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ بڑا زبردست حاکم و فرمانبردار بن گیا ہے، جیسا کہ کسی نے کہا ہے: فنشربہا وتترکنا ملوکا واسد الا ینہنہما اللقاء
[1] مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس چیز کی بڑی مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے اور بخاری و مسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ نے شراب کی حرمت نازل فرمائی اور وہ پانچ چیزوں سے بنتی ہے۔ انگور، کھجور، شہد، جو اور گیہوں سے اور شراب ہر وہ چیز ہے جو عقل کو خمور کر دے۔ [2] بخاری: ۵۵۹۸۔ ابوداؤد: ۳۶۸۳۔