کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 243
دار اُن پر صبر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر مسلمان کو اس بات کے لیے مارا پیٹا جائے کہ رمضان کے دن میں وہ افطار کو مباح کرے تو وہ ہرگز نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ مومن اپنے نفس پر تقویٰ کی لگام لگائے رکھتا ہے اور گمراہی و ہلاکت کے مواقعات سے اس کو روکتا ہے۔ یہاں تک کہ نفس اللہ کی طاعت اور نفس اپنے مالک کے تابع ہوتا ہے۔ اگر مالک اس کو مختلف خواہشات کا لالچ دلائے اور حرام چیزوں کے کھانے اور پینے کے لیے لگام ڈھیلی کر دے تو نفس حریص اور خواہش مند بن جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کو تقویٰ کی لگام سے باندھے رہے اور ہلاکت اور گمراہی کے گھاٹ سے اس کو روک کر رکھے تو وہ تسلی کرتا ہے اور اپنے مالک کا فرماں بردار ہو جاتا ہے… ؎ وما النفس الا حیث یجعلہا الفتی فان اطمعت تاقت والا تسلت قد افلح من زکاہا وقد خاب من دسّٰہا ’’اور نفس کو جہاں آدمی رکھے گا وہیں رہے گا اگر اس کو لالچ دے گا تو شوق کرے گا نہیں تو تسلی کرے گا۔ کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کو صاف کیا اور ناکام ہوا وہ جس نے اس کو خراب کیا۔‘‘ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کو پید اکیا اس کو عقل دے کر سب حیوانوں پر فضیلت بخشی اور اس کے اندر کان، آنکھ کو جوڑ دیا تاکہ اس سے اس کی صلاحیت پوری ہو جائے اور وہ اپنے منافع کو حاصل کر سکے اور نقصانات سے دور رہ سکے۔ لیکن جب وہ نشہ آور چیزوں پر غالب آ گئی تھی تو معلوم ہوا کہ وہ عقل صحیح کا مالک ہی نہیں ہے، اور اس نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی ہے، اور عقل کو عقل اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو سمجھتا ہے یا اس لیے کہ وہ صاحب عقل کو فرائض اور فضائل کا پابند کرتی ہے اور برے اخلاق اور کمینہ پن سے باز رکھتی ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے: