کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 242
سر میں درد ہوگا تو وہ شراب پی لے گا۔ جیسا کہ کہا گیا کہ میرا علاج اس چیز سے کرو جو میرے لیے بیماری ہے۔ لیکن ہم اس بات اور عقیدہ کو صحیح نہیں مانتے کیونکہ تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ عمل اس کے خلاف ہے اس لیے کہ نفس کا کام صاحب نفس ہی کرتا ہے، لہٰذا مضبوط ارادہ اور سچا عزم ہو تو شراب نوشی ترک کرنا اور اس سے توبہ کرنا بہت آسان ہے، کیا تم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہیں دیکھا کہ جاہلیت کے زمانے میں بیچنے سے بڑھاپے تک کس طرح وہ شراب کی محبت میں پروان چڑھے تھے لیکن اسلام لانے اور ان کے دلوں میں اس کے راسخ ہو جانے کے بعد وہ اس سے تائب بھی ہو گئے اور اس کو ترک بھی کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ راسخ ایمان بندگی کرنے کے لیے بھی سب سے مؤثر طاقت ہے اور منکرات کے ارتکاب سے رکنے کے لیے بھی موثر طاقت ہے، اور قابل تعریف صبر وہی ہے جو اللہ کی اطاعت پر جما دے اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے روک دے۔ یہی نہیں بلکہ صحابہ تو ان شہیدوں پر بھی افسوس کرتے تھے جو شراب کی حرمت سے قبل شراب پیتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا: ﴿لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾ اس لیے کہ قوانین تو اعلان کے بعد ہی لاگو ہوتے ہیں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے مشروب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہوا کیونکہ ایمان منکرات کے ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کے استعمال سے رکاوٹ کے لیے سب سے بڑی طاقت ہے۔ ؎ ولن ترجع الانفس عن غیہا مالم یکن منہا لہا زاجر ’’نفس اپنی گمراہی سے اس وقت تک باز نہیں آ سکتا جب تک اس سے اس کو کوئی روکنے والا نہ ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے نفس اور شہوات اور ہویٰ کو مغلوب کرنے کے لیے روزہ کو مشروع قرار دیا اور روزہ دار پر کھانے، پینے، جماع، شراب و سگریٹ وغیرہ خواہشات حرام کر دی ہیں اور روزہ