کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 240
’’یعنی شراب ذکر اللہ اور نماز سے روکتی ہے۔‘‘ ۴۔ ذکر اللہ اور نماز سے روکنے والی: یہ ایک حقیقی اور تجربہ سے جانچی ہوئی بات ہے کہ شراب اللہ کی یاد اور نماز سے روکتی ہے۔ اسی لیے کہ تم شرابی اور جواری کو بہت کم مسجد میں پاؤ گے کیونکہ وہ اپنے حال میں غافل اور بے سد رہتے ہیں ۔ شیطان ان پر قابض ہو کر اللہ کی یاد سے ان کو غافل کر دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر وہ نماز کے پابند ہوتے تو نماز اُن کو ان بری باتوں کے کرنے سے ضرور روک دیتی۔ کیونکہ نماز فحش و منکر سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، نیز فرمایا: ﴿وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُo﴾ (المائدۃ: ۹۲) ’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ہوشیار ہو جاؤ کہ اگر تم اس حکم سے پھرے تو ہمارے رسول پر کھول کر پہنچا دینا ہی کافی ہے۔‘‘ ان آیات سے بڑھ کر زجر و تو بیخ کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت کریں ، اور ان کو سختی سے منع کیا کہ محرمات کا ارتکاب اور اس کی اطاعت ترک کر کے حکم الٰہی کی اطاعت کریں اور یہ آیت شراب نوشی کی حرمت کی تاکید کے سلسلے میں ہے کیونکہ شراب ہر برائی کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان سخت مہلک جرائم سے ممانعت کا ذکر فرمایا تو اس کے بعد فرمایا: ﴿فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۹۱) ’’یعنی کیا تم اس سے باز آتے ہو۔‘‘ تو جو شخص سن کر باز آیا اس نے اچھا کیا، اور اسی لیے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شراب کی نفرت و کراہت کے جذبے کے تحت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر لبیک کہتے ہوئے فرمایا: ’’ہم باز آئے، ہم باز آئے۔‘‘ نیز یہ بت پرستی اور جوئے کے ہم پلہ ہے۔ [1]
[1] ترمذی، باب تفسیر سورۃ المائدۃ: ۳۰۴۹۔