کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 24
نے فرمایا: ((اَلْاِسْلَامُ عَلَانِیَۃٌ وَالْافیْمَانُ فِی الْقَلْبِ۔)) [1] ’’اسلام ظاہری اعمال کا نام ہے اور ایمان دل میں ہوتا ہے۔‘‘ اسلام ظاہری باتوں کا نام کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان درحقیقت وہی ہے جو پانچوں نمازیں پڑھا کرتا ہے، اور فرض زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ماہ رمضان کا روزہ رکھتا ہے اور شریعت اسلامیہ پر عمل کرتا ہے۔ اس طرح عوام کے سامنے اس کا اسلام ظاہر ہوتا ہے اور لوگ اُس کے مسلمان ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور عوام الناس ہی زمین میں اللہ کے گواہ ہیں اور یہ اعمال دراصل ایمان کی صحت کے لیے عنوان اور دلیل ہیں ۔ انہیں اعمال کے ذریعے سے سچا دراصل ایمان کی صحت کے لیے عنوان اور دلیل ہیں ۔ انہیں اعمال کے ذریعہ سچا مسلمان کافروں ، فاسقوں اور نافرمانوں سے الگ اور ممتاز ہو کر پہچانا جاتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ﴾ (العنکبوت: ۲۔۳) ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض اس لیے چھوڑ دیے جائیں گے کہ وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے، اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا۔ حالانکہ ہم نے ان سے پہلے والوں کو بھی آزمایا ہے۔ تو اللہ ضرور جا ن لے گا سچوں کو، اور ضرور جان لے گا جھوٹوں کو۔‘‘ لیکن جن لوگوں نے محض زبان سے کہہ دیا: ’’ہم ایمان لے آئے‘‘ اور اُن کے دل مومن نہیں ہوئے، اور اُن کے اعضاء و جوارح عمل کے لیے تابع نہیں ہوئے اور اسلام سے اُن کا تعلق محض نام اور نسبت کا رہ گیا نہ عمل نہ اطاعت تو اُن کا حال تو ان لوگوں جیسا ہوا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] مسند احمد: ۳/ ۱۳۴، ح: ۱۲۴۰۴۔