کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 236
’’اے ایمان والو شراب، اور جوا اور بت اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوے کے ذریعے سے عداوت و بغض ڈال دے اور اللہ کے ذکر سے اور نماز سے تم کو روک دے تو کیا تم باز آؤ گے۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور احتیاط رکھو، اگر تم اعتراض کرو گے تو جان لو ہمارے رسول پر صاف صاف پہنچا دینا ہے۔‘‘ بعض سلف صالح کا قول ہے کہ جب اللہ کا ارشاد: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ کے ساتھ سنو تو اس پر پوری توجہ کرو، کیونکہ اس خطاب کے ذریعے سے کسی خیر کا تم کو حکم دیا جا رہا ہے اور کسی شر سے روکا جا رہا ہے۔ مسلمان جب مدینہ منورہ ہجرت کر گئے اور ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو گیا اور عمل کے لیے ان کے اعضاء و جوارح فرماں بردار ہو گئے تو اللہ نے ان کو ’’ایمان والوں ‘‘ کے خطاب سے پکارا۔ اسی لیے یہ خطاب صرف مدنی سورتوں ہی میں پایا جاتا ہے، اور مذکورہ بالا آیتیں سورہ مائدہ کی ہیں جو قرآن میں اترنے والی سب سے آخری سورہ ہے لہٰذا س کے حلال کو حلال سمجھو اور حرام کو حرام، اور شراب کی حرمت میں یہ آیت نص قطعی ہے، جو شخص شراب کے جواز کا قائل ہے وہ کافر ہے، اور اللہ تعالیٰ محرمات میں سے کسی چیز کو بھی حرام کرتا ہے جیسے سود، زنا، شراب خود ہی تو ان میں سے سب کی مضرت واضح اور مفسدت راجح ہوتی ہے، اور واجبات میں سے کسی بھی چیز کو واجب کرتا ہے جیسے نماز، زکوٰۃ، روزہ تو اس کی مصلحت راجح اور منفعت واضح ہوتی ہے اور اللہ نے شراب کو اس سے پیدا ہونے والے مختلف قسم کے نقصانات کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے، کیونکہ وہ ام الخبائث اور تمام گناہوں کا مرکز، برائیوں کی کنجی اور فجور کی داعی ہے، چھپے ہوئے راز کو کھولنے والی اور عمر کو گھٹانے والی ہے۔ جسم میں مختلف قسم کی مضرت رساں چیزیں پیدا کرتی ہے۔ دولت کا خاتمہ اور خاندانی نظام کو تہ و بالا کرتی ہے اورپینے والے کے اندر مختلف قسم کے جنون اور جہالت اور لا پروائی پیدا کرتی ہے۔