کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 231
عیب اور مذاق سمجھتے ہیں اور اپنے مرتبہ سے کمتر محسوس کرتے ہیں ، بلکہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کو سزا دیتے ہیں ۔ تو ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت یا انبیاء میں سے کسی کی تمثیل اور آواز او رحرکت کی اداکاری کیسے جائز سمجھی جا سکتی ہے؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ آپ کا احترام کیا جائے اور اس کام سے روکا جائے۔ کیونکہ اس سے لوگوں کے دلوں میں آپ کے مرتبہ کا تقدس کم ہوتا ہے اور کچھ زمانہ گزرنے کے بعد اس سے ایمان بھی کمزور ہو جائے گا، اور لوگ صرف اسی پر ایمان لائیں گے جتنا آپ کی نقلی صورت میں سے مشاہدہ کریں گے اس لیے کہ یہ ادا کار جب انبیاء میں کسی کی ادا کاری کرنا چاہیں گے، مثلاً حضرت ابراہیم یوسف علیہما السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فلم بنانا چاہیں گے تو کسی اکھڑ دیہاتی کو پکڑیں گے جو بکھرے بال اور گھنی ڈاڑھی والا ہوگا اور اس کو کھڑا کر کے اس کی تصویر لیں گے اور اسی کو رسالت سے مخاطب کریں گے اور کہیں گے یا رسول اللہ! فلاں فلاں معاملات میں آپ کا کیا ارشاد ہے، وہ دیہاتی کہے گا ایسا اور ویسا، اور پھر اسی تمثیل کو وہ لوگوں کی نگاہوں اور کانوں پر بار بار پیش کریں گے۔ یہاں تک کہ دلوں سے ان انبیاء کی عظمت و ہیبت جاتی رہے گی، اور یہ حقیقت ہے کہ رسول بشر تھے، اللہ نے ان کو رسالت سے ممتاز کیا تھا اور اُن کو ایسا جمال و جمال عطا کیا تھا کہ جو بھی ان کو دیکھتا تھا مرعوب ہوتا اور جو بھی ان کو دیکھتا محبت کرتا۔ جیسا کہ عبداللہ بن سلام کا بیان ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو یقین کر لیا کہ آپ کا چہرہ جھوٹے کا نہیں ہے لہٰذا آپ کی شخصیت کی اداکاری سے آپ کی حالت اور عظمت و ہیبت اس طرح بدل جائے گی جس سے آپ کی حرمت و کرامت ساقط ہو جائے گی، اور وہ مرعوبیت کے بجائے ذلت کا سبب بنے گی کیونکہ وہ اپنی اصل اور معنی ہر اعتبار سے بالکل فرضی اور جھوٹ ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میرے اوپر جھوٹ باندھنا دوسروں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے، جو مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے گا اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ [1]
[1] بخاری ، باب ما یکرہ من النیاحۃ: ۱۲۹۱۔ مسلم: ۳۔