کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 230
تھے اور ان کے متعلق کبھی نہیں سنا گیا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فلم بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوگا کہ خود مسلمانوں نے اس کا دروازہ کھول دیا ہے اور خود وہی اپنے پیغمبر کی صورت و حرکات و تعلیم کو سینما میں پیش کرنے لگے ہیں تو دشمنان دین بھی اسی دروازہ سے داخل ہو کر اس حجاب کو تار تار کر ڈالیں گے اور وہ جو کچھ چاہتے ہیں بڑھ چڑھ کر کرنے لگیں گے۔ شر کا ظاہر کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے۔ ورنہ مسلمانوں کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ ان قوموں کے لیے اس کا دروازہ کھولیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات افعال و حرکات کو فلم پر پیش کر کے صرف پیسہ کمانا چاہتے ہیں اور وہ اس فلم کو ان مذاقیہ فلموں کے ساتھ شامل کر لیں گے جو محض عقل سے کھیلنے اور تضیع اوقات کے لیے بنائی جاتی ہیں ، اور ساتھ ہی جتنا چاہیں گے اس میں من مانی اضافہ بھی کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کی اداکاری کا اختراع کرنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا یہ عمل اچھا اور مباح ہے کیونکہ یہ فلم ایک مؤثر دینی و عظ کا درس ہے۔ یہ دعویٰ باطل بلکہ لوگوں کو پھنسانے اور بہکانے کی ایک ترکیب ہے۔ کیونکہ یہ فلمیں وعظ کے لیے نہیں بلکہ اس طرح بگاڑ کر بنائی جاتی ہیں جن سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی قدر و عظمت کم ہوتی ہے اور دنیا بھر کے علماء و عوام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل کو آپ کے لیے توہین آپ کی عزت و تقدس اور کرامت کے منافی سمجھتے ہیں ۔ بلکہ تمام انبیائے کرام کی تمثیل بھی ان کے لیے اہانت ہے۔ اس سلسلہ میں ان شاذو نادر لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں جو انبیاء کی فلم سازی کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک اس میں نہ انبیاء کی توہین ہے نہ ان کے لیے مرتبے کی خرابی۔ کیونکہ ایسے لوگ ان چند گنے چنے لوگوں میں سے شمار کیے جاتے ہیں جن پر اجنبیوں کی تقلید کا جذبہ غالب ہے۔ کیونکہ وہ ان کی فلموں کو کثرت سے دیکھتے ہیں جس سے حق و باطل اور مفید و مضر کے درمیان تمیز کرنے والی ان کی عقل ختم ہو چکی ہے۔ بلکہ وہ ان بری عادتوں کو اسلامی آداب پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ جب ملوک اور حکام اور بڑے بڑے دین دار علماء کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان کی شخصیتوں اور آواز و حرکات کی نقل اتاریں ، بلکہ وہ اس کو اپنے لیے