کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 220
اہل کی حفاظت کا جذبہ جتنا زیادہ شدید ہوگا اس کی غیرت و حمیت بھی اتنی ہے سخت ہوگی، اور برائیوں خصوصاً زنا اور اس کے لوازمات میں جتنا ملاپ ہوگا اتنا ہی اس کے دل سے غیرت کی حرارت بجھے گی اور پھر وہ برائی کو نہیں سمجھے گا نہ اپنے لیے نہ اپنے گھر والوں کے لیے بلکہ بے حیائی کے فعل سے اس کو ہمدردی ہو گی اور دوسرے کے لیے وہ اس کو سنوار کر پیش کرے گا جیسے دیوث کرتا ہے جو برائی کو اپنی بیوی کے اندر باقی رکھتا ہے اور اسی وجہ سے جنت اس پر حرام ہے، جیسا کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: ((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ دَیُّوْثٌ۔)) [1] ’’دیوث جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ دیوث اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بیوی کے اندر برے کام کو باقی رکھتا ہے کیونکہ جو اپنی ذات واخلاق میں ذلیل ہے ذلت کا ہر کام اس کے لیے آسان ہے۔ اپنے اخلاق اور گھرانے کو برباد کرنے والے چاہتے ہیں کہ دوسروں کے اخلاق اور گھرانے بھی خراب ہوں تاکہ اس سے ان کا عار مٹے اور ان کی ذلت و رسوائی پر پردہ پڑے ایسے ہی لوگ چاہتے ہیں کہ بے حیائیاں ان کے شہر میں پھیلیں ، اور غیرت تو دین کا حصہ ہے، جس میں غیرت نہیں اس میں دین نہیں ، کیونکہ بے غیرتی کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی حدود اللہ اور اس کے محرمات کو توڑنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ فرمائیے اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس غیر مرد کو پائے تو کیا کرے؟ اگر اس کو قتل کر دے تو آپ اس کو قتل کر دیں گے اور اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو وہ چلا جائے گا۔ تو سعد بن عبادہ نے کہا، لیکن اگر میں پا جاؤں گا تو بے لاگ اس کو تلوار سے مار ڈالوں گا یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ لوگوں کو سعد کی غیرت پر تعجب نہیں ؟ اور میں سعد سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے، حضرت سعد کو بر وقت جو غیرت آئی اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] مسند الطیالسی: ۲/ ۳۳، ح: ۶۷۷۔