کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 219
میں سونے کے کنگن اور سونے کی گھڑی ہے اور نصف پنڈلی تک پاؤں کو کھولے گی اور اپنے سر اور گردن اور ہار اور کان کی بالیوں کو کھولے گی، اور اس مخلوط سوسائٹی میں جب آئے گی تو رنگ روغن اور خوشبو دار عطیات سے لیس اور مزین ہو کر ہی نکلے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ نوجوان اس کو دیکھنے والے ہیں ، ایسی صورت میں اجنبی مردوں کے سامنے اس زینت کے اظہار کی حرمت میں کسی عقل مند کو شبہ ہو سکتا ہے۔ اس کی حرمت میں تو شک و تردد کی گنجائش ہی نہیں ۔ نیز اس کے لیے تعاون بھی حرام ہے اور ایسا کرنے والوں کی مدد کرنا بھی حرام ہے بلکہ جو لوگ اس کو باقی رکھے ہوئے ہیں ان کا یہ عمل بھی حرام ہے اس پر چپ رہنا بھی حرام ہے، اس کے مفاسد کی تفصیل کی بھی ضرورت نہیں ۔ ان مفاسد کا انجام عقل و تجربے سے بالکل بد یہی طور پر معلوم ہو چکا ہے اور جتنا ہم نے اب تک ذکر کیا اس سے زیادہ تو ان مفاسد کو وہ لوگ جانتے ہیں جو ان کی تقلید میں مبتلا ہیں ، لیکن اپنے اس اندھے پن کو وہ ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھتے ہیں تو اس کو اختیار نہیں کرتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھتے ہیں تو جو لوگ ان پر عمل پیرا اور ان کو چھوڑنے کے سلسلے میں مخالف ہیں یہ اُن کا مذاق اڑاتے ہیں ، کیونکہ وہ اس کو تمدن اور روشن خیالی کہتے ہیں : عمی القلوب عموا عن کل فائدۃ لانہم کفرو باللّٰہ تقلیدا ’’دل اندھے ہو گئے ہر فائدے سے آنکھیں بند کر لیں کیونکہ محض تقلید میں انہوں نے اللہ کا انکار کیا۔‘‘ محارم کے خلاف غیرت رکھنا فضائل و مکارم کی عادات میں سے سمجھا جاتا ہے۔ غیرت مند آدمی سے ڈرا جاتا ہے اور جس میں غیرت نہیں وہ ذلیل ہے، غیرت جو اپنے محل و مقام پر ہوتی ہے وہ آدمی کی زندگی کی حفاظت اور اس کے گھر والوں کی حمایت کے لیے ہتھیار کا کام دیتی ہے، کیونکہ قابل تعریف غیرت یہ ہے کہ قبیح چیزوں سے کراہت کی جائے اس کو برا سمجھا جائے اس سے اور اس کے کرنے والے سے نفرت کی جائے، اور انسان میں اپنے اور اپنے